• news

عدم اعتماد پر ووٹنگ اور حکومتی رویہ

سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کیلئے ہفتے کی صبح طلب کئے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سرکاری بنچوں کی جانب سے ووٹنگ کی نوبت نہ آنے دینے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی۔ متذکرہ فیصلہ میں سپیکر کو دیئے گئے حکمنامہ کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ہفتے کی صبح ساڑھے دس بجے تک قومی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد لازمی تقاضا تھا اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے سوا کوئی دوسرا معاملہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اپوزیشن بنچوں پر صبح دس بجے سے قبل ہی ارکان اسمبلی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے جن کی تعداد مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کے بقول 176 تھی اور ووٹنگ کی صورت میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت نئے قائد ایوان کے انتخاب کیلئے ووٹنگ کرانا بھی سپیکر کیلئے لازمی تقاضا بنایا گیا۔ تاہم سرکاری بنچوں کی جانب سے ووٹنگ کیلئے تاخیری حربے اختیار کرنے کا عندیہ ملتا رہا۔ سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر نے صبح ساڑھے دس بجے اجلاس کا آغاز کیا اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو بحث کے آغاز کی دعوت دی۔ انہوں نے تقریر میں سپیکر کو باور کرایا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کا متعلقہ پیرا پڑھ کر سنایا کہ آج اجلاس کی کارروائی صرف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ تک محدود رہنی ہے اور کوئی دوسرا معاملہ ایجنڈے میں شامل کرنا عدالتی فیصلہ کی خلاف ورزی ہوگی اور سپیکر صاحب توہین عدالت کی زد میں آئینگے۔ سپیکر  اسدقیصر نے اس پر یقین دلایا کہ وہ ہائوس کی کارروائی سپریم کورٹ کے فیصلہ میں دی گئی ہدایات کے مطابق ہی چلائیں گے تاہم انہوںنے فلور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دے دیا جنہوں نے امریکی مراسلے کا حوالہ دیکر اپوزیشن پر غداری کے الزامات کا اعادہ کیا اور جب انکی تقریر طول اختیار کرنے لگی تو اپوزیشن بنچوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا جس پر سپیکر اسدقیصر نے اچانک اجلاس دوپہر ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا جبکہ اجلاس کا دوبارہ آغاز دو گھنٹے کی تاخیر سے سہ پہر اڑھائی بجے ہوا۔ اس وقفے کے دوران اپوزیشن قائدین نے سپیکرز چیمبر میں سپیکر کے ساتھ اجلاس کے فی الفور دوبارہ آغاز کیلئے مذاکرات بھی کئے۔ سہ پہر اڑھائی بجے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے بجائے پینل آف چیئرمین کے ایک رکن امجد نیازی نے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا اور وزیر خارجہ کو اپنی ادھوری چھوڑی گئی تقریر مکمل کرنے کیلئے کہا چنانچہ وزیر خارجہ مسلسل ایک گھنٹے تک تسلسل کے ساتھ تقریر کرتے رہے اور اپوزیشن ارکان نے صبروتحمل کے ساتھ انکی تقریر سنی۔ وزیر خارجہ نے متعلقہ امریکی خط ایوان میں ’’ان کیمرہ‘‘ ارکان اسمبلی کو دکھانے کا عندیہ دیا تاہم انکی اس تجویز کو پذیرائی نہ ملی۔ وزیر خارجہ کی تقریر کے بعد پینل آف چیئرمین امجد نیازی نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو فلور دیا جنہوں نے چیئرمین کو باور کرایا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہ کراکے صریحاً توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں جس پر وہ مستوجب سزا ہوں گے۔ انہوں نے ووٹنگ کرانے پر اصرار کیا اور ساتھ ہی ساتھ امریکی خط کے حوالے سے حکومتی موقف کا بھی جواب دیا۔ انکے بعد مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعدرفیق نے بھی پینل آف چیئرمین پر فی الفور ووٹنگ کرانے کا تقاضا کیا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے لازمی تقاضہ کی تعمیل پر زور دیا۔ انکے بعد وفاقی وزیر اسدعمر کو فلور دیا گیا اور اس طرح ووٹنگ کے بجائے ہائوس میں تقاریر کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھا گیا اور سپیکر اسدقیصر نے دوبارہ اجلاس کی صدارت سنبھال لی۔ اس دوران اپوزیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تقاضوں کے برعکس اسمبلی کی کارروائی چلانے پر سپیکر کیخلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے جبکہ سرکاری بنچوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی وسیع بنچ کے فیصلہ کیخلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ اس تناظر میں بادی النظر میں اجلاس کے دوران یہی تاثر ملتا رہا کہ حکومت عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہ کرانے کے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔ یہ طرز عمل یقیناً سپریم کورٹ کے فیصلہ سے روگردانی کے مترادف تھا جبکہ حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی معاونت کے ساتھ آئین سے روگردانی کے راستے گزشتہ ماہ آٹھ مارچ کو اپوزیشن کی پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک کے وقت سے ہی نکالنا شروع کر دیئے گئے تھے اور ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت عدم اعتماد کی تحریک پر ہائوس میں ووٹنگ کی نوبت نہ آنے دینے کی کوشش کی جاتی رہی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے پہلے آئین کی دفعہ 95 کی ذیلی دفعات کی بنیاد پر 14 دن کے اندر اندر قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کی ہی نوبت نہ آنے دی اور 25 مارچ کو اجلاس بلا کر مرحومین کیلئے فاتحہ خوانی کے بعد بغیر کسی کارروائی کے اجلاس 30 مارچ تک ملتوی کر دیا۔ اس روز ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس کی صدارت کی اور جب اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے ہائوس میں وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کردی تو اس پر بحث کیلئے ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی کارروائی 3 اپریل تک ملتوی کر دی اور پھر 3 اپریل کو ڈپٹی سپیکر نے قرارداد پر بحث کا آغاز کرانے کے بجائے پوائنٹ آف آرڈر پر وفاقی وزیر فواد چودھری کو فلور دے دیا جنہوں نے مبینہ امریکی خط کا حوالہ دیکر اپوزیشن کے تمام ارکان پر ملک سے غداری کے مرتکب ہونے کا الزام عائد کیا اور اس بنیاد پر عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کا مطالبہ کیا جو ڈپٹی سپیکر نے جھٹ پٹ منظور کرکے تحریک مسترد کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کا چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا اور عبوری حکم جاری کرکے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کیلئے عدالت عظمیٰ کا وسیع تر بنچ تشکیل دے دیا۔ فاضل بنچ نے اس کیس کی مسلسل پانچ روز تک سماعت کرکے 7 اپریل کی رات اپنا فیصلہ صادر کیا اور عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے سے متعلق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئینی اختیارات سے متجاوز اور کالعدم قرار دے دی۔ فاضل عدالت نے سپیکر کو ہدایت کی کہ وہ 9 اپریل کی صبح ساڑھے دس بجے تک اسمبلی کا اجلاس بلا کر عدم اعتماد کی تحریک پر کارروائی مکمل کریں اور ووٹنگ کرائیں۔ 
سپیکر اسدقیصر نے اجلاس کی کارروائی کے دوران ہائوس کو یقین دلایا تھاکہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے عین مطابق اجلاس کی کارروائی عمل میں لائیں گے۔ انہوں نے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی تقریر کے دوران بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ روبہ عمل لانے کا یقین دلایا جنہوں نے سپیکر کو باور کرایا تھا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک پر آج بھی ووٹنگ سے گریز کرینگے تو توہین عدالت کا ارتکاب کرینگے۔ اسکے باوجود سرکاری بنچوں کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کیلئے تاخیری حربے اختیار کرنا افسوسناک ہی قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی جمعۃ المبارک کی شب قوم سے اپنے خطاب میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تحفظات کا اظہار کیا اور لوگوں کو اتوار کی شب نماز عشاء کے بعد گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آنے کی کال دی جو بادی النظر میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کیخلاف احتجاجی تحریک کا عندیہ تھا۔اسی طرح اپوزیشن کے بقول افطاری کے وقفے کے دوران حکومتی شخصیات نے اپوزیشن کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے عوض ان سے وزیراعظم اور وزراء کیلئے رعائتیں طلب کیں اور میاں شہباز شریف کے علاوہ اپوزیشن کی کسی دوسری شخصیت کو وزیراعظم کیلئے نامزد کرنے کا تقاضا کیا مگر اپوزیشن نے حکومت کی کوئی بھی شرط ماننے سے انکار کر دیا۔ اپوزیشن کے مطابق سپیکر اسدقیصر نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے دوست عمران خان کیخلاف عدم اعتماد پر ہرگز ووٹنگ نہیں ہونے دینگے جس کیلئے وہ کوئی بھی سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔ 
 قوم بالخصوص پارلیمنٹیرین حضرات سے آئین و قانون کی پاسداری و عملداری کی توقع کرتی ہے۔ مگر قوم کے منتخب نمائندوں بالخصوص حکومتی اکابرین کی جانب سے آئین و قانون کی عملداری سے گریز کیا جائے اور اپنے خلاف عدالتی فیصلوں کو کسی سازش سے تعبیر کیا جائے تو عام آدمی کو آئین و قانون کے احترام کا کیسے پابند کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کے حوالے سے حکومتی اختیار کردہ طرز عمل کے باعث  ہی موجودہ ایک ماہ کا پل پل ملک اور قوم پر بہت بھاری گزرا ہے اور جمہوریت کی عملداری پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں جبکہ قاعدے قانون کے مطابق اور پرامن طریقے سے حکومت کی تبدیلی بھی قوم کیلئے ایک ڈرائونا خواب بنی رہی۔ ہمیں ایسی اقدار و روایات بہرصورت قائم نہیں ہونے دینی چاہئیں جو ملک میں انتشار و انارکی کی نوبت لانے اور اس ارض وطن کو جنگل کے معاشرے کی جانب دھکیلنے پر منتج ہو سکتی ہو۔ 

ای پیپر-دی نیشن