ڈاکٹر سید نذیر احمد۔ جنہیں بھلانا ممکن نہیں
میری ساری زندگی درس و تدریس میں گزری ہے۔ پہلی سے سولھویں جماعت تک مختلف اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ پھر تدریس سے وابستہ ہوا۔ اب اس میں ساٹھ برس کا طویل زمانہ گزار چکا ہوں۔ اس دوران میں درجنوں اساتذہ سے پڑھا۔ پھر بہت سے رفقائے کار سے واسطہ پڑا۔ کالج کے پرنسپل حضرات اور یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کی ماتحتی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان میں ہر مزاج کے لوگ تھے۔ اتنے سخت بھی کہ ماتحت عاجز آ جاتے تھے اور اتنے نرم بھی کہ کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا۔ ایسے بھی تھے جو انتہائی دریانت دار تھے اور ایسے بھی کہ جو ادارے کے فنڈز کو ذاتی رقم تصور کرتے تھے۔ متحمل لوگ بھی تھے اور غصیلے بھی۔ بااصول بھی تھے اور اوپر والوں کے اشارۂ ابرو پر ہر کام کر گزرنے والے بھی۔ ان میں سے بعض لوگوں کا قدرے مفصل ذکر میری خودنوشت میں ملے گا۔
اس طویل دورانیے میں ایک ناقابلِ فراموش شخصیت پروفیسر ڈاکٹر سید نذیر احمد کی تھی جو کئی سال گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل رہے۔ میں 1954ء میں جب گورنمنٹ کالج جھنگ میں فسٹ ایر کے طالب علم کی حیثیت سے داخل ہوا تو ڈاکٹر نذیر وہاں پرنسپل تھے۔ ان کے بیشتر رفقائے کار اور طلبہ ان کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتے تھے۔ دو ایک بار کسی انتظامی مسئلے میں ان سے ملا تو انھوں نے مسئلہ فوراً حل کر دیا۔ ان کا عمومی طریقِ کار یہی تھا کہ کسی مسئلے کو دفتری طریقِ کار میں الجھانے کی بجائے براہِ راست حل کر دیتے تھے۔ اوسط درجے کا قدو قامت، چہرے پر مسکراہٹ، رنگ صباحت اور ملاحت کے درمیان، بہت گھنے بال جو بار بار چہرے پر گر جاتے تھے جنھیں وہ ہاتھ سے ہٹاتے رہتے تھے۔ موٹے موٹے ہونٹ، لیکن مزاج ایسا خوشگوار تھا کہ لوگ چہرے مہرے پر توجہ دینے کی بجائے عادات و خصائل کے سبب ان سے محبت کرنے لگتے تھے۔ انھیں کوئی ’کومپلیکس‘ نہیں تھا۔ ہر قسم کا لباس پہن لیتے تھے۔ مغربی لباس سے زیادہ مشرقی لباس پہننا پسند کرتے تھے بلکہ بے تکلفی سے نیکر اور ٹی شرٹ پہن کر سائیکل پر کالج آ جاتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریسی سائیکل پر اور ٹی شرٹ میں آتے جاتے کئی بار بہ چشمِ خود دیکھا ہے۔ ماتحتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے کہ کسی کو احساس نہیں ہوتا تھا کہ کوئی افسر ان سے مخاطب ہے۔ اسی طرح طلبہ بلا تکلف ان سے مل سکتے تھے۔
گورنمنٹ کالج جھنگ میں وہ چار سال پرنسپل رہے مگر وہاں ان کا دل نہیں لگتا تھا۔ اکثر رخصت لے کر چلے جاتے تھے۔ لیکن ان کے بچے جھنگ ہی میں رہتے۔ ان کا بڑا بیٹا اسلامیہ ہائی سکول جھنگ میں مجھ سے دو سال پیچھے تھا لیکن سکول کی مسجد میں مولوی صاحب دینیات میں ہمیں یکجا کر کے آیات یاد کراتے تھے جہاں میری اس سے دوستی ہو گئی۔ یہ لڑکا بھی ’کومپلیکس فری‘ تھا اور اسے رتی برابر احساس نہیں تھا کہ وہ پرنسپل کا بیٹا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دو بھتیجے بھی کالج میں پڑھتے تھے۔ دونوں کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان کی بھی کفالت کرتے تھے۔ اس طرح یک طرفہ طور پر میں ڈاکٹر صاحب سے بہت قرب محسوس کرنے لگا۔
چار سال بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کا طالب علم بنا تو ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں آ چکے تھے۔ میرا داخلہ تو میرٹ کی وجہ سے بلاتردد ہو گیا لیکن خیال یہ تھا کہ ہاسٹل میں شاید جگہ نہ ملے چنانچہ میں ڈاکٹر صاحب سے ملا۔ انھیں جھنگ کا حوالہ دیا۔ بہت اچھی طرح پیش آئے۔ یہ کام بھی میرٹ پر ہو گیا لیکن ان کا رویہ مجھے متاثر کر گیا۔ وہ اس وقت زوالوجی ڈپارٹمنٹ میں صدرِ شعبہ تھے مگر کالج کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش ہوتے تھے۔ چند ماہ بعد خواجہ منظور حسین کے ریٹائر ہونے کے بعد وہ پرنسپل بن گئے اور تقریباً چھ سال اس ممتاز عہدے پر فائز رہے۔ خواجہ منظور حسین پرنسپل کے دفتر سے شاذ ہی باہر نکلتے تھے مگر ڈاکٹر نذیر صحیح معنوں میں عوامی آدمی تھے۔ پرنسپل کے دفتر سے نکل کر کالج میں گھومتے رہتے تھے۔ کینٹین میں بھی آ جاتے اور اساتذہ ہی نہیں طلبہ کے پاس بیٹھ کر چائے بھی پی لیتے مگر بل خود ادا کرتے تھے۔ کالج میں ادب اور موسیقی کے تقریبات میں باقاعدہ شریک ہوتے، مباحثے سنتے۔ مجلسِ اقبال کے اجلاس ان کی دلچسپی کی وجہ سے بھرپور انداز میں منعقد ہوتے۔ لاہور میں کوئی بڑی سے بڑی ادب اور موسیقی کی شخصیت ایسی نہ تھی جس سے ان کے دوستانہ تعلقات نہ ہوں۔ ان کی وجہ سے کالج میں حفیظ جالندھری، خواجہ خورشید انور، فیض احمد فیض، ڈاکٹر عبدالسلام اور دیگر نابغۂ روزگار شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔
ڈاکٹر صاحب جس طالب علم میں ذرا سی بھی صلاحیت دیکھتے اس کی بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کو بڑی بڑی محفلوں میں اہم ترین شخصیات سے متعارف کراتے۔ مثلاً محمود شام جب ایم اے فلسفہ میں داخلے کے لیے جھنگ سے آئے تو ڈاکٹر صاحب انھیں کالج کینٹین میں لائے اور وہاں جو اساتذہ بیٹھے ہوئے تھے ان سے ان لفظوں میں تعارف کرایا کہ ’جھنگ سے محمود شام آئے ہیں‘۔
میں نے جب مجلسِ اقبال میں پہلی بار اپنی شاعری سنائی تو خوب داد دی۔ میں ان دنوں نیو ہاسٹل میں مقیم تھا۔ ایک دن میں ہاسٹل سے باہر کہیں گھوم پھر رہا تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد واپس آیا تو لڑکوں نے مجھے کہا کہ پرنسپل آپ سے ملنے آئے تھے۔ میں نے جب شک کا اظہار کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ ایک رقعہ آپ کے نام چھوڑ گئے ہیں۔ ان کا خط بہت خوبصورت تھا جسے میں پہچانتا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ میں آپ کی تلاش میں آیا تھا لیکن آپ کہیں گئے ہوئے تھے۔ آپ جب بھی واپس آئیں میرے گھر پہنچ جائیں۔ ان کا گھر کالج کی چار دیواری سے باہر اور شعبۂ حیاتیات کے قریب ہی تھا۔ فوراً وہاں پہنچا۔ قدرے ڈر بھی رہا تھا کہ نادانستگی میں کوئی خطا سرزد نہ ہو گئی ہو۔ دروازے پر پہنچا، گھنٹی بجائی۔ ڈاکٹر صاحب چہرے پر مسکراہٹ سجائے تشریف لائے۔ فرمایا، ’انگلینڈ سے ڈاکٹر عبدالسلام آیا ہوا ہے میں تمھیں اس سے ملوانا چاہتا ہوں‘۔ اندر لے گئے۔ ان سے میرا تعارف کرایا اور کہا، ’سلام! یہ لڑکا بہت اچھا شاعر ہے۔
میں نے سوچا اس کی تم سے ملاقات کراؤں‘۔ میں ڈاکٹر عبدالسلام سے جھنگ میں دو دفعہ مل چکا تھا لیکن وہ مجھے نہیں پہچانتے تھے۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب کو فزکس کے کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل ہو چکے تھے لیکن ابھی نوبیل پرائز نہیں ملا تھا۔ وہ متوسط قد و قامت کے تھے۔ سرخ و سفید چہرہ، ہلکی ہلکی مونچھیں، سر کے بال ابھی سیاہ تھے۔ بہت محبت سے ملے۔ جھنگ کا حوالہ بھی آیا۔ ڈاکٹر نذیر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے، ’سلام کا ادبی ذوق اعلیٰ درجے کا ہے۔ انھیں اپنی شاعری سناؤ‘۔ میں نے امتثالِ امر کے طور پر کچھ اشعار سنائے۔ پھر ڈاکٹر عبدالسلام سے کہنے لگے، ’یہ لڑکا جب اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ جائے تو اس کی مدد کرنا‘۔ انھوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ آپ ہی کہیے نو آموز طلبہ کی اتنی حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی اور پرنسپل آپ نے کہیں دیکھا؟ (جاری)