اسلام آباد ہائیکورٹ سے پیکا آرڈیننس کالعدم
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈی نینس 2022ء کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ اور پی بی اے وغیرہ کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے اسے کالعدم قراردے دیاہے۔ عدالتی فیصلے میں پیکا قانون پر ایف آئی اے کے خلاف اختیار سے تجاوز کرنے پر انکوائری کا حکم دیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ سے 30 روز میں رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ عدالت نے توقع ظاہر کی ہے کہ وفاقی حکومت ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے گی اور متعلقہ آرڈی نینس کو مؤثر بنانے کے لیے پارلیمینٹ کو مناسب قانون سازی کی تجویز دے گی۔ عدالت نے ان افراد کے خلاف بنائے جانے والے مقدمات بھی کالعدم قرار دے دیے جوان قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایف آئی اے کی طرف سے قائم کیے گئے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی صحافی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے تحسین کی گئی ہے کیونکہ اس آرڈی نینس کے ذریعے درحقیقت آزادی ٔاظہارکے حق پر ناروا قد غن لگادی گئی تھی، اور ایسی شقیں شامل کردی گئی تھیں جو آئین اور انسانی حقوق کے سراسر منافی تھیں۔ حکومت نے مذکورہ قانون بدنیتی سے جاری کیا تھاکیوں کہ اسے منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بجائے صدارتی آرڈی نینس کا سہا رالیا گیا جو بذات خود جمہوری رویے اور سوچ کے منافی تھا۔ آئین پاکستان اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کو عام آدمی کا بنیادی حق گردانتا اور اس کی ضمانت مہیا کرتا ہے۔ ان حقوق کو دبانا یا ان پر پابندی عائد کرنا غیرآئینی اور غیر جمہوری فعل ہے اسی لیے اسے کالعدم قرار دے دیاگیا ہے۔ عوامی، سیاسی اور صحافتی حلقوں نے اس آرڈی نینس کو ڈریکونین قانون کانام دے کر پہلے ہی مسترد کردیا تھا ۔ یقیناً آزادی اظہار کو بھی آئین و قانون اور اخلاقیات کے تقاضوں کے مطابق ہی روارکھا جاسکتاہے۔ اس لیے عدالت نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس قانون کو پارلیمنٹ میں لے جائے اور وہاں اسکے مضمرات کا جائزہ لینے کے بعد اس کی منظوری حاصل کی جائے تاکہ یہ قابلِ عمل ہوسکے۔