• news

اتوار ، 8 رمضان المبارک 1443ھ،10 اپریل 2022ء

پٹرول 27روپے ڈیزل 31 روپے مہنگا کرنے کی سفارش
جاتے جاتے بھی سارے حکمران عوام کی ننگی پیٹھ پر تازیانے برسانے سے باز نہیں آرہے۔ اب چند ہفتے قبل خود وزیراعظم نے بڑے دھڑلے سے اعلان کیا تھا کہ بجٹ یعنی جون تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا، یہ برقرار رہیں گی۔ مگر اب لگتاہے جاتے جاتے وہ بھر پور اضافہ کا وار کرکے اس کا سارا بوجھ نئے حکمرانوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایک دو روپے کا اضافہ ہوتا تو شاید دکھوں کے مارے لوگ برداشت کر جاتے۔ یہ 34 روپے تک کا معاملہ آسانی سے برداشت نہیں ہو گا۔ بھارت کے جمہوری نظام کی تعریفوں کے پل باندھنے والے ذرا یہ بھی یاد رکھیں وہاں گزشتہ ماہ میں جو تین چار مرتبہ پٹرولیم کی قیمت میں اضافہ ہوا تو وہ صرف پیسوں میں تھا کبھی 8 پیسے کبھی 5 پیسے کبھی 6 پیسے‘ اور کچھ نہیں تو ہمیں ان سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ بدترین حالات میں بھی وہاں کے حکمران پہلے عوام کا سوچتے ہیں۔ صاف لگ رہا ہے حکومت جاتے جاتے آنے والوں کے لئے حالات نکونک تک خراب کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ انہیں قدم قدم پر معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور موجودہ حکومت نے جو مہنگائی کا سونامی برپا کیا ہے اس پر قابو پانے میں ناکامی ہو۔ اب جو بھی ہو دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت جو سرپرائز دینے میں کافی مہارت رکھتی ہے۔ عوام کو جاتے ہوئے ایسا بھاری سرپرائز دے کر جاتی ہے یا پٹرولیم ڈویژن کی یہ سمری مسترد کرکے عوام کی دعائیں لیتی ہے۔
٭٭٭……٭٭٭
کراچی میں ایم کیو ایم لندن کی رابطہ کمیٹی کے دو ارکان گرفتار
 لگتا ہے ایم کیو ایم لندن والوں نے ملک میں سیاسی افراتفری دیکھتے ہوئے اپنے قدم پھر جمانے کی پلاننگ شروع کر دی ہے۔ جبھی تو یہ المشہور قسم کے دو نہایت ہی نیک نام شرفا کنور خالد یونس اور مومن خان کو انہوں نے پاکستان میں اپنا نمائندہ مقررکیا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ اس سیاسی افراتفری کے ماحول میں بھی قانون نافذکرنے والے اداروں نے آنکھیں کھلی رکھی ہوئی ہیں۔ محکمہ داخلہ سندھ نے ان دونوں کٹھ پتلوں کو جن کی ڈور لندن میں بیٹھے گینڈے کے ہاتھوں میں ہے،گرفتارکر لیا ہے۔ ان کو غیرقانونی سرگرمیوں اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کے الزام میں دھر لیا گیا ہے۔ یہ تو پاکستان کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ اپنے وجود سے چمٹی ان جونکوں کو صرف جسم سے ہٹا دیتا ہے۔ ورنہ ان کا اور ان جیسے تمام پاکستان دشمنوں کا علاج صرف اور صرف ان کا مکمل صفایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جو قومیں اپنے غداروں پر رحم کھاتی ہیں انہیں معاف کرتی ہیں۔ انہیں جلد یا بدیر اس نرمی کی سزا خود بھگتنا پڑتی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ بھیڑیئے ہم پر پھر حملہ آور ہونے کی سازشیں رچائیں ہمیں ان کی ان کے ٹھکانوں پر ہی جاکر ہی خبر لینا ہوگی تاکہ ان کے ذہن اور دلوں میں پلنے والا خناس حقیقت کا روپ دھار نے سے قبل ہی خاک میں مل جائے۔
٭٭٭……٭٭٭
میرا جرم کیا ہے‘وہ مجھے کیوں نکالنا چاہتے ہیں: عمران خان
گزشتہ شب وزیراعظم نے جس جذباتی انداز میں قوم سے خطاب کیا اس کے بعد تو ہمارے سیاسی بیان بازوں کو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے وزن پر ’’میرا جرم کیا ہے‘‘ جیسا بیانیہ مل گیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کے جلسوں میں یہ جملہ خاصی مقبولیت حاصل کرے گا۔ مسلم لیگ (نون) والے مجھے کیوں نکالا کی گردان دھراتے ہیں تو پی ٹی آئی والے ’’میرا جرم کیا ہے‘‘کا راگ الاپا کریں گے۔ اگر وہ چاہیں تو میرا گناہ کیا ہے یا میری خطا کیا ہے۔ بھی استعمال کرتے سکتے ہیں اور
 ’’ حالات نے بنایا جو سرکار بن گئے
 کوئی خطا نہیں تھی خطا کار بن گئے‘‘
والا دکھ بھرا بیانیہ لے کر عوام کے سامنے جاتے ہیں تو شاید انہیں زیادہ غور سے سنا جائے گا۔ عوام خود بھی دکھی ہیں۔ وہ دکھی بیانیہ پر زیادہ جذباتی ہو جائیں گے اور یہ بھول جائیں گے کہ انہیں جو دکھ ملے ہیں ان میں زیادہ ہاتھ خود عمرانی حکومت کا ہی ہے۔ جس میں زندگی سے جڑی ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ غریب عوام اس صدمے کے باوجود امید ہے وزیراعظم کا رونا دھونا دیکھ کر شاید اپنا رونا دھونا بھول جائیں گے۔ ہماری سیاست بھی عجب ہے۔ جو وزیراعظم اقتدار سے محروم ہوتا ہے وہ خوب ہمدردیاں چاہتا ہے۔ اسکے حامی موالی کبھی بے نظیر بے قصور کے نعرے لگاتے ہیں۔ کبھی مجھے کیوں نکالا کا شور مچاتے ہیں مگر عمران خان پہلے وزیراعظم ہوں گے جو اقتدار سے نکالنے سے قبل ہی اپنا قصور اپنی خطا یا اپنا جرم پوچھ رہے ہیں۔ جو بڑی حیرت کی بات ہے۔ ورنہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
٭٭٭……٭٭٭
بے ہوش نہیں ہوا روزے کے باعث چکر آئے تھے: حماد اظہر
یہ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ والا معاملہ تو نہیں تھا پھر کیوں وضاحتیں کی جا رہی ہیں۔ پوری قوم جانتی ہے کہ ماہ رمضان المبارک جاری ہے۔ اس میں موسم گرما کی وجہ سے روزے داروں کی آزمائش ذرا زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات بندے کو غش آ جاتا ہے۔ یا وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس میں پریشانی والی کیا بات ہے۔ ایسا اکثر نازک مزاج لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب چکر آتے ہوں تو بندہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اسے فوری طبی امداد دی جاتی ہے۔ یہی بنی گالہ کے اجلاس میں ہوا۔ تو حماد اظہر کو اب خواہ مخواہ وضاحتیں دینے کی کیا ضرورت ہے۔ کون سی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اجلا س میں ان پر الزام تراشی ہوئی یا مہنگائی کا ذمہ دار ان کو گردانا گیا تھا کہ ان کا بلڈ پریشر یا شوگر لو ہوگئی اور انہیں چکر آ گیا ۔اس وقت پی ٹی آئی پر لگتا ہے کال چکر چل رہا ہے۔ جس میں تدبیر الٹ جاتی ہے۔ بقول شاعر 
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹانظر آتا ہے
 لیلیٰ نظر آتی ہے مجنون نظر آتا ہے
 سو اب بے ہوشی طاری ہو یا چکر آئیں اس کی وجہ بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ روزہ دار ان آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ ان آزمائشوں کا اجر بھی زیاد ہوتا ہے۔ آپ بے ہوش ہوتے یا آپ کو چکر آتے، عوام کو اس حوالے سے چکر میں ڈالنے کی ضرورت نہیں انہوں نے کون سا آپ سے پوچھنا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن