شہبازشریف کے سامنے معاشی، سیاسی چیلنجز، حکومت بدلنے سے کئی ادارے غیرفعال
اسلام آباد (عترت جعفری) میاں شہباز شریف ملک کے 23ویں وزیراعظم بن گئے ہیں۔ وفاق میں یہ چوتھا موقع ہے جب اقتدار پاکستان مسلم لیگ ن کے ہاتھ میں ہے اور بہت سے معاشی و سیاسی چیلنجز سامنے ہیں۔ ان پر فوری توجہ دینا پڑے گی۔ حکومت کے بدل جانے کی وجہ سے معیشت کو چلانے والے بہت سے ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں۔ جن میں اقتصادی رابطہ کمیٹی، ایکنک، انرجی کمیٹی، نجکاری کمیٹی شامل ہیں۔ ان کی فوری تشکیل نو کرنا ہو گی۔ نیا این ایف سی بنانا پڑے گا۔ سابق حکومت کے دور میں این ایف سی بار بار غیر فعال ہوتا رہا، اس کے چند ہی اجلاس بلائے جا سکے۔ اس کی تشکیل نو کرنا ہو گی اور اس کو متحرک کرنا ہو گا۔ اسی طرح ملک کو افراط زر کا سامنا ہے اور ہر گزرتے ہفتے کے ساتھ مہنگائی بڑھتی رہی ہے۔ اس پر نیشنل پرائس کمیٹی نظر رکھتی ہے، وزیر خزانہ اس کی صدارت کرتے ہیں، اس کمیٹی کو جلد فعال کرنا ہو گا۔ قومی اقتصادی کونسل بنانا پڑے گی، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی بھی تشکیل نو ہو گی، اقتصادی مشاورتی کونسل بھی بنانی پڑے گی۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہے۔ حکومت کے لئے یہ مسئلہ ہو گا کہ وہ جلد فیصلہ کریں کہ آئی ایم ایف سے کب بات کرنا ہے۔ حکومت کا امتحان ہو گا کہ وہ ملک کو گرے لسٹ سے نکال سکے، حکومت کو سٹیٹ بنک کے قانون میں حال ہی میں کی جانے والی ترامیم کے بارے میںبھی جلد فیصلہ کرنا ہو گا۔ بجٹ کی تیاری سے متعلق مختلف کمیٹیوں کے اجلاس جن میں ترجیحات کمیٹی شامل ہے نہیں ہو سکے ان کو جلد طلب کرنا پڑے گا۔ حکومت کو جلد از جلد کابینہ اور بیورو کریسی میں تقرریوں کو مکمل کرنا ہو گا تاکہ ان اہم اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔