پرانے پاکستان کے نئے وزیراعظم شہباز شریف کا امتحان!!!!!
شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ان کے بھائی میاں نواز شریف بھی تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں امکان ہے کہ ان کے صاحبزادے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بھی بن جائیں گے۔ پرانے پاکستان کے نئے وزیراعظم کو یہ عہدہ مبارک ہو اقتدار ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں اس میدان میں وہ خاصے تجربہ کار ہیں اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انتظامی معاملات کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں انہیں یہ عہدہ مبارک ہو۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد اور اتوار کی رات عمران خان کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگوں کے سڑکوں پر نکلنے کے بعد میاں شہباز شریف اور درجن بھر اپوزیشن جماعتوں پر توقعات کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ میاں شہباز شریف کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں۔
نو منتخب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے قوم کو ریلیف دیتے ہوئے کم سے کم اجرت کو پچیس ہزار روپے کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔مزدور کے لیے سب سے اہم مزدوری کاملنا ہے اگر اسے مزدوری ملتی رہے تو بھلے پیسے کم ہی ہوں کام چلتا رہے گا۔ یہ یاد رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے سال 22-2021 کے وفاقی بجٹ میں کم سے کم ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر کی تھی جبکہ سندھ نے گذشتہ بجٹ میں ہی تنخواہ پچیس ہزار روپے کر دی تھی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی دس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔انہوں نے ملکی سرمایہ کاروں سے اپیل کی کہ یکم اپریل سے ایک لاکھ تک تنخواہ والے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی دس فیصد اضافہ کریں۔ نو منتخب وزیراعظم کے مطابق ان چیزوں کا اطلاق یکم اپریل دو ہزار بائیس سے ہو گا۔ نئی حکومت بے نظیر کارڈ دوبارہ شروع کر کے اسے مزید وسعت دے رہی ہے۔ شعبہ تعلیم کو اس سے منسلک کر کے، لیپ ٹاپ کی تقسیم دوبارہ شروع کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اگر بینظیر کارڈ شروع ہو سکتا ہے تو پھر صحت کارڈ بھی بند نہیں ہونا چاہیے عوامی فلاح کے منصوبے کسی بھی حکومت کے ہوں انہیں سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔ ویسے میاں شہباز شریف نے یہ تمام اعلانات منتخب ہونے کے فوری بعد اور حلف اٹھانے سے پہلے کیے ہیں۔ ان اعلانات کی بنیادی وجہ اتوار کا وہ کراؤڈ ہے جو بڑی تعداد میں عمران خان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے نکلا تھا۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ تو حکومت کو بجٹ میں کرنا ہی تھا وہ نئے وزیراعظم نے پہلی تقریر کے دوران کر دیا ہے۔
بہرحال انہیں عام آدمی کی زندگی آسان کرنے کے اقدامات کرنے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈالر ریٹ کم ہونے سے فرق پڑتا ہے، مہنگائی کم ہو سکتی ہے، حکومت نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں، اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی اور استحکام کے لیے اقدامات کرتے ہوئے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے ہیں۔ گندم کے لیے نئے وزیراعظم کا اعلان خوش آئند ہے لیکن اب انہیں چینی کو بھی باون روپے فی کلو پر لانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک پاکستان تحریکِ انصاف کا قومی اسمبلی میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ ہے یہ عمران خان کی مارچ کے پہلے ہفتے سے تحریک عدم اعتماد تک کے سیاسی فیصلوں کا تسلسل ہے۔ انہوں نے اپنا سپیکر برقرار رکھا ہے جو استعفے قبول کرے گا اور پھر چار پانچ ماہ سڑکوں پر ہی گزریں گے۔ پی ٹی آئی ان کے لیے آسان حریف ثابت نہیں ہو گی۔ چونکہ یہ سب غیر فطری انداز میں اکٹھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی دن ایم کیو ایم کی طرف سے شکوے سامنے آ رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اس اتحاد کو بچانے کے لیے آصف علی زرداری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دیں جو اتحادیوں کے مسائل حل کرے کیونکہ بات چیت کے ذریعے سیاسی لوگوں کو قائل کرنے اور انہیں جوڑے رکھنے کا فن آصف علی زرداری سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ میاں شہباز شریف جیسے تیسے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچے ہیں اگر وہ ملکی، عوامی مسائل حل کرتے ہیں، معیشت کو بہتر بناتے ہیں تو یقیناً وہ اپنے بارے منفی تاثر کو زائل کر سکتے ہیں لیکن انہیں بہت محنت، سنجیدگی، میرٹ، ایمانداری اور بروقت فیصلوں کی ضرورت ہو گی۔