عمران خان کی سیاست، خوبیاں اور خامیاں
ایک امریکی صدر نے ایک لیڈر میں مختلف خصوصیات کی ضرورت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی رہنما میں ذہانت انتہائی ضروری ہوتی ہے اسی طرح اس میں دور اندیشی کا ہونا اور ہوا کے رخ کو جاننا اور اپنے کارڈز کو احسن طریقے سے پھرتی سے کھیلنا اپنی قوم و ملک کیلئے بروئے کار لانا اشد ضروری ہوتا ہے۔ اس کو مستقبل کے آنیوالے حالات کے بارے میں اتنا ہی شاطر ہونا چاہئے جتنا اس کو اپنی انگلی کو ہوا میں سیدھا کھڑ اکرنے سے ہوا اور اردگرد کی تمازت اور رخ کا پتہ چل جاتا ہے۔ دلیر، نڈر ہونا بیشک ایک زبردست اور ایک لیڈر کیلئے سب سے ضروری خوبیوں میں سے ایک ہے لیکن اس خوبی کا اتنا بے دریغ اور عامیانہ استعمال کسی بھی لیڈر کو یقینی تباہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ کسی بھی لیڈر کا ضرورت سے زیادہ اپنے ہی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوجانا اور اپنے کو ناقابل شکست سمجھ لینا اسی کی مکمل تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔خطرات کا تو کسی بھی رہنما کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن سوچ سمجھ کر ان خطرات کو مول لینے والے زیادہ کامیاب رہتے ہیں بہ نسبت ان رہنماوں کے جو ہر خطرے کو سیدھا جاتے جاتے خواہ مخواہ مول لیتے ہیں اور اکثر اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات ذاتی ضد میں آ کرجان کا خطرہ بھی راہ جاتے جاتے مول لے لیتے ہیں۔ اردگرد کے حالات کو خاطر یا ذہن میں جانتے ہوئے بھی نظر انداز کردینا اور ڈائنامکس سے ماورا رھنا، مخالف قوتوں کو جارحیت کی دعوت دینا ہوتا ہے۔اگرچہ دنیا کے کسی بھی رہنما کو جسمانی تشدد زدوکوب یا ہراسمنٹ کا سامنا رہتا ہے اور یہ خصوصی طور پر غیر ترقی یافتہ اقوام کے رہنمائوں جن کی سیکورٹی کو بھی کوئی اور خود مختار پرسن یا ادارہ کنٹرول کر رہا ہوتا ہے کاسامنا رہتا ہے، ایسے رہنمائوں کو محتاط بلکہ شاطرانہ انداز میں عملی زندگی کے کانٹوں خطروں سے بچنا ہو گا۔خصوصی طورترقی پذیر مما لک میں سیاست جان بوجھ کر ایسے لوگوں کے حوالے کر دی گئی ہے جن کی کوئی چھان بین ہی نہیں ہوتی اور انہوں نے پھر ہمیں کیا خاک رول کرنا ہے جبکہ ہمارے جیسے ممالک ہی میں آرمی، بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ ڈاکڑ اور انجینیر کیلئے میرٹ اور قواعد سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ سیاست دانوں کیلئے کوئی قوالیفائنگ امتحان یا میرٹ نہیں ، صرف پیسے کی فراوانی ، ڈیرہ داری بے شک ان پڑھ ہوں ضروری ہوتی ہے۔ یہ المیہ ہے جس پر کبھی غور نہیں کیاگیا ،شائد انہی وجوہات کی وجہ سے ہمارے سیاسی حالات ابتر ہیں۔ چلیں ان کو بعد میں ملکی اور دنیا کے بارے ، اسمبلیوں میں ان کو مختص محکمے کی سوجھ بوجھ پر مطالعہ اور اس پر محنت کرنی چاہئے ۔ یہ تمام دوسرے ممالک میں بڑی دیر سے جاری و ساری ہے۔وہاں ہر ایم پی اپنے ترقیاتی گرانٹ میں نت نئی تحقیق سے کام لیکر بچت کر کے قوم کو دور رس منصوبے بنا کر دیتا ہے۔ جن کو حکومت چلانی ہے ، ان کی تعلیم ، کردار تو سب سے بلند ہونا چاہئے لیکن پاکستان میں بہتر سالوں سے گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ عمران خان بھی کچھ ، میں، سے شروع ہو کر، میں، پر ہی اپنی تان توڑتے تھے ۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی کامیابی کو بھی انہوں نے میری یا اپنی کوشش قرار دی حالانکہ وہ جیت ٹیم ورک کا نتیجہ تھی اکیلے عمران خان تو ہر گز تمام ٹیم نہ تھے۔اسی طرح ان کی ٹیم کی حکومتی کارکردگی کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے، تو ان ساڑھے تین سالوں میں مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ، کرپشن سفارش کا دور دورہ رہا۔ خارجہ پالیسی میں بھی کوئی دور اندیش بریک تھرو نہ کر سکے۔ان کی ٹیم ڈالر کی اڑان کو کنٹرول کرنے میں ٹوٹل ناکام رہی۔ غرض کسی بھی شعبے میں متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکی۔ایسٹبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اپنی عددی اکثریت برقرار نہ رکھتے ہوئے اپوزیشن سے تصادم کی راہ اختیار کی اور اپنے تمام سیاسی مخالفوں کو چور اور ڈاکو کہنا ان کا طرہ امتیاز بن گیا۔ جبکہ انکی اپنی پارٹی میںشوگر اور آٹا مافیا کے ڈان بھی ملوث تھے ۔وہ ان میں سے کسی کو بھی ثبوتوں کے ساتھ پکڑ کر جیل نہ بھیج سکے۔اور عوام مہنگی چینی اور آٹا خریدنے پر خوار ہوتے رہے۔ذاتی طور پر ان پر کرپشن کا الزام نہ تھا اور نہ انہوں نے شہباز شریف کی طرح اپنے منظور نظر افراد کو اٹھائیس محکمے بنا کر بھرتی کیا اور خزانے کو نقصان پہنچایا نہ پلاٹوں کی نواز شریف کی طرح بندر بانٹ کی ، نہ ڈرون حملے ہوئے انکے کردار کی اس خوبی نے ان میں ضرورت سے بھی زیادہ اعتماد بھر دیا اور وہ آخرمیں فوج سے بھی الجھ گئے اوور کانفیڈیٹ ہو کربھٹو بننے کی کوشش میں ایک خود دار قوم کے خودار رہنما کی حیثیت سے امریکاکو للکارا اور عوام کو امریکی سامراج سے آزادی موہوم دلانے کے نعرے میں عوام کو یقین دلانے میں کامیاب رہے۔ آج وہ ماضی کی تاریخ کا حصہ ہو جانے کے بعدضرور سوچیں گے کہ انہیں کچھ تو غریبوں اور تنخواہ دار عوام کو ریلیف دینا چاہیے تھا،ہر چیز دھرنا اور فریق مخالف کو کوسنے دینا ہی نہیں ہوتا۔ انکے کریڈٹ میںلمبی تقریروں کی جگہ عملی ، قابل ٹیم کی کارکردگی نظر آنی چاہئے تھی جو کہ بدقسمتی سے آج نظر نہیں آ رہی۔ لیکن بہر طور وہ اپنی خصوصیات کی وجہ سے اپنے آپ کوایک سیاستدان کی بجائے ایک لیڈر کے طور پر منوا کر رہے۔