• news

جادو ٹونے کی سرکار کا خاتمہ

10 اپریل کو بالآخر جادو ٹونے کی سرکار عمران خان کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جنات ناکام ہو گئے تو آپ حکومت کیسے چلوائیں گے؟ مجھے جادو ٹونا نہیں آتا۔ جو انسان جنات سے راہنمائی لیتا ہے، وہ جنات سے بھی بدتر ہے۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ میں جادو ٹونے کو حرام سمجھتا ہوں۔ 
جادو یا سحر کے بنیادی معنی ہیں۔ کسی بات کو موڑ توڑ کر پیش کرنا۔ نہایت لطیف اور دقیق انداز سے دھوکا دینا۔ اسکے بعد یہ لفظ عام دھوکے اور فریب، جھوٹ اور طمع سازی کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ اس جہت سے اسکے معنی جادو کے بھی آئے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ لفظ فریب اورجھوٹ کے نہیں بلکہ جادو ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن قرآن کریم میں بہ کثرت جھوٹ اور فریب کے معنوں میں آیا ہے۔ جادو کے معنوں میں بہت کم۔ ساحر کا لفظ باطل پرست، فریب کار کے معنوں میں آتا ہے۔ قرآن کریم کی رو سے جادو کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ نفسیاتی طور پر دوسروں کی قوت متخلیہ کو متاثر کر دیا جاتا ہے۔ سورہ طٰہٰ آیت 65-66  کا ترجمہ ہے۔ ’’موسیٰ نے کہا کہ تم ہی ڈالو، جبھی انکی رسیاں اور لاٹھیاں انکے جادو کے زور سے انکے خیال میں دوڑتی ہی معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا۔ ہم نے فرمایا۔ ڈر نہیں، بے شک تو ہی غالب ہے اور تو ڈال دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے وہ انکے بناوٹوں کو نگل جائیگا اور جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادو کا فریب ہے اور جادو کا بھلا نہیں ہوتا‘‘ ۔
کرکٹر کے طور پر عمران خان ماڈرن، لبرل اور روشن خیال شخص تھا۔ مغربی لباس (پینٹ اور کوٹ) زیب تن کرتا۔ اس نے شادی ایک انگریز لڑکی جمائما سے کی۔ سیاست میں آنے کے بعد اسکی کایا پلٹ گئی۔ وہ قومی لباس (شلوار، قمیص) میں ملبوس دکھائی دینے لگا۔ انگوٹھی پہنے، ہاتھ میں تسبیح پکڑے یا لپیٹے ہوئے ہوتا۔ اس نے تیسری شادی ایک ایسی خاتون سے کی جو ’’پیرنی‘‘ مشہور ہے ا ور سخت باپردہ۔ اس کی صرف آنکھیں دکھائی دیتی ہیں۔ بشریٰ بی بی کے بارے میں یہ باتیں مشہور ہوئیں کہ وہ جادو ٹونے پر یقین رکھتی ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسی عملیات کی وجہ سے عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوا اور تقریباََ ساڑھے تین سال حکمرانی کی۔ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی اس نے قومی لباس (شلوار، قمیص) ترک نہ کیا۔ یہاں تک کہ غیر ملکی دوروں کے دوران سربراہان سے ملاقاتوں میں بھی وہ قومی لباس میں ملبوس ہوتا اور اس سلسلے میں اسے کوئی کمپلیکس نہیں تھا۔ وہ مادی چیزوں پر اپنے دین اور ثقافت کی اقدار کو ترجیح دیتا۔ اسی اقداری نظام کی وجہ سے اس نے ماڈلنگ کی سینکڑوں پرُکشش پیشکش رد کر دی تھیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ساڑھے تین سال بعد جادو ٹونے کے اثرات ختم کیوں ہو گئے کہ اسکی حکمرانی جاتی رہی۔ کالا علم یا کالا جادو بھی مشہور ہے۔ اس کا علم نہیں کہ بشریٰ بی بی کونسا جادو یا علم کرتی تھیں۔ کالا علم یا کالا جادو جب کوئی عامل کرتا ہے تو وہ اپنے عمل کیلئے ایسی فضا تشکیل دیتا ہے جو انسان کے اندر کی منفی قوتوں کو بیدار کرتی ہے اور گناہ کو فروغ دیتی ہے۔ مثلاََ وہ ساری کی ساری فضا ہی بھیانک ترتیب دیتا ہے۔ کالا کپڑا، کالے ماش، کالی بلی اور کالا بکرا بھی کالے جادو یا کالے علم کیلئے بہت اہم ہے۔ ایسے عمل کیلئے بہترین وقت زوالِ آفتاب ہوتا ہے۔ کیونکہ سورج کی شعاعوں میں اتنی طاقت نہیں رہتی اور ناقص نور والے چاند کی کرنیں نفرت کی فضا پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور منفی اثرات چھوڑتی ہیں۔ ایسا عمل ایک ایسے کمرے میں کیا جاتا ہے جو ویرانے سے مشابہ ہو۔ اس مقصد کیلئے اس کمرے میں انسانی ہڈیاں رکھی جاتی ہیں، قبرستان کی مٹی رکھی جاتی ہے۔ جب بدی کی تمام علامتیں اکھٹی کر دی جائیں تو ایک خاص قسم کی فصا پیدا ہوتی ہے۔ سیاست میں آنے کے بعد عمران خان کو بڑی تعداد میں سامعین میسر آ گئے۔ وہ ٹی وی کے ٹاک شو میں بھی شرکت کرتا رہا۔ جہاں وہ پاکستان کی کرپشن سے آلودہ سیاست پر خوب تنقید کرتا۔ وہ سابق حکمرانوں کیخلاف سخت زبان استعمال کرتے ہوئے انھیں مجرم اور ڈاکو کہتا۔ جنھوں نے اپنے فائدے کیلئے قومی خزانہ لوٹ لیا۔ وہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کیخلاف خوب گرجتا رہا کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر حاصل کی ہوئی دولت غیر ملکی بینکوں میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ نشاندہی کرتا رہا کہ ان لوگوں کے مفادات پاکستان سے باہر ہیں۔ اس لیے ان لوگوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس نے محسوس کیا کہ جب عوام پوری طرح جان چکے ہوں گے کہ تمام پارٹیوں کے لیڈر کرپٹ ہیں تو وہ میری طرف دیکھیں گے۔ عوام نے اسے موقع دیا مگر عوام کو مایوسی ہوئی۔ اس کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک سے قبل عمران خان نے اپنی تقریروں میں کہا کہ میرے خلاف ایک سوپر طاقت نے دھمکی امیز خط لکھا ہے کہ عمران خان کی حکومت گرا دی جائے۔ اس خط کو لہرا کر دکھایا بھی گیا۔ اب یہ خط چیف جسٹس آف پاکستان سے شیئر کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ خط اصلی اور واقعی دھمکی آمیز ہے۔ اس کا فیصلہ تو اب سپریم کورٹ ہی کریگی۔ 

ای پیپر-دی نیشن