یتیم بچوں کا عالمی دن
2013 کو او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامی کواپریشن) نے یتیم بچوں کے ساتھ خلوص اور یکجہتی کا اظہار کرنے کیلئے ہر سال 15 رمضان کوپوری دنیا میں ؛یوم یتامی: منانے کا اعلان کیا یہ غالباً دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے پہلا عالمی دن ہے جو مسلمانوں نے تخلیق کیا ہے اس پیشتر تمام عالمی یوم امریکن یایورپین اقوام کی اختراع ہیں 2016 ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ نے قرارداد پاس کی کہ پاکستان میں ہر 15 رمضان کو یوم یتامیٰ منایا جائیگا اس دن سے پاکستان میں یوم یتامی منایا جاتا ہے مسلمان یوم یتا می کیوںمناتے ہیں بنیادی طور پر یتیم بچہ محرومی اور تنہاہی کا شکار نہ ہو اور یہ ہی مسلمان کی عظمت ہوتی ہے حضرت ابوہریرہ سے رو یایت ہے کہ محمدﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ معبوث فرمایا اللہ پاک قیامت کو اس بندے کو عذاب نہ دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی اس سے نرمی سے بات کی ٰیتیم بچوںکیفیت کے ضمن میں اگرتحقیقی فکرو نظر کی روشنی میںجائزہ لیں تو یہ امر عیاں ہو جاتا ہے کہاوہ ہے ایک یتیم بچہ وہ ہے جس کا والد قضائے الٰہی سے فوت ہو جائے دوسرے پاکستان میں رونماہونے والی ناگہانی آفات زلزلے، سلاب ، طوفان سے تباہی و بربادی ہوئی اور خصوصاً تیس سال سے جاری دہشت گردی کی بھر مار سے سول وآرمڈفورسز کی ہلاکتوں سے بھی لاکھوں بچے یتیم ہوے پاکستان میں اس وقت 42/43 لاکھ یتیم بچے موجود ہیں دیگر ممالک پر نگاہ ڈالیں تو شام ،فلسطین، افغانستان ،عراق ،روہنگیا میں جس طرح مسلمان بچوں کے والدین کی بہیمانہ انداز میں ہلاکتیں ہوئیں اسکی مثال ملنی مشکل ہے اسکے ساتھ ساتھ ترکی اور شام کے بارڈر پر 70/80 ہزار خاندانوں کے کیمپوں میں زیادہ تر بچوں کے والد یا والدین بھی شہید ہو چکے ہیں ان المیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی 13 کروڑ 2o لاکھ یتیم بچے موجود ہیں اس میں چھ کروڑ بچوں کا تعلق ایشیا ہے ۔ان مخدوش صورت حال میں یتیم بچوں کی بود و باش کے تناظر میںیوم یتامی کی ضرورت اور افادیت زیادہ بڑھ جاتی ہے اسلام ہی یتیم بچوں کے حقوق ان تک پہنچانے کیلئے رسائی حاصل کرنے کا دین ہے یوم یتامی بنیادی طور پر اس امر کا عہد کرنے کا دن ہے کہ یتیم بچہ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھے اسلام بنیادی طور پر یتیم بچے کی کفالت کیلئے اسکے رشتے داروں پر زور دیتا ہے اسکے بعد پورے معاشرے کو پابند کرتا ہے کہ یتیم بچہ کی پرورش کرنے پر اجر عظیم ملے گا۔ یتیم بچوں کی دیکھ بھال ایک اہم ترین مسلئہ ہے دین اور دنیا اس امر کا تقاضہ کرتے ہیں کہ یہ قومی سرمایہ ہے جسے ضائع ہونے سے بچانا ہے اس کی ذمے داری اور لائحہ عمل کا تعین حکومتی سطع پر کرنے کی اشدضرورت ہے ۔پاکستان میں یہ خوش آئین بات ہے کہ یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کرنے والی چند این جی اوز نے آرفن کیر فورم تشکیل دے رکھاہے تاکہ شفقت پدری سے محروم بچوں کو ا ن کے حقوق سے بارور کیا جا سکے وہ اس ڈے کے حوالے سے یتیم بچوں کی بہبود اور تعمیر کیلئے بھر پور انداز میں آواز اٹھاتی ہیں اس ساری صورت حال میں اہم بات یہ ہے کہ ان یتیم بچوں کی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم لیے خاطر خواہ اور موثر انتظام کی ضرورت ہے اس ضمن یہ امر ناگزیر ہے کہ ایسی این جی اوز جو یتیم بچوں کی کفالت کے ٖفرائض نبا رہی ہیں بنیادی طور پر اپنی ریاست کی مددکر رہی ہیںضرورت اس امر کی ہے حکومت ان این جی اوز کے ساتھ ایسی پالیسی مرتب کرے کہ یہ بچے پاکستان کیلئے سود مند شہری بن سکیں ایک ایسے شہری بنیں جو امن کے داعی ہوں جنہیں جرائم سے نفرت ہو ایک ادارہ تشکیل دیا جائے جو ان یتیم بچوں کے مجموعی مسائل کے حل کا ادراک رکھتا ہو۔
پاکستان میں یہ خوش آئند بات ہے کہ بے گھر، لاوارث اور یتیم بچوں کی کفالت کیلئے کئی این جی اوز کام کر رہی ہیں اسی طرح پاکستان کی پہلی این جی او انجمن حمایت اسلام دارالشفقت جس کے نام سے یتیم خانہ چوک لاہور مشہور ہے نے یتیم بچوں کی کفالت کا 1884 بیڑہ اٹھا رکھا ہے یہ ایک موثر انداز میںبچوں بچیو ں کی پرورش کر رہی ہے اس ادارے کی حقانیت سے متاثر ہو کر ڈاکٹر علامہ اقبال اسکے ممبر بنے اورپھر 1934/1937 میںانجمن حمایت اسلام کے صدر رہے یہاںیتیم ماں باپ کی شفقت سے محروم بچوں کی تعلیم خوراک ، لباس، علاج،اور رہائش کا بہت خیال رکھا جاتا ہے انکی انتظامیہ کا یہ موقف ہے 138 سالوں میںہم نے لاکھوں بچوں بچیوںکو اپنے پائوں پر کھڑا کیا ہے ہزاروں بچیوں کی شادی کراچکے ہیں بچوں کو معاشرے کیلئے ایک سود مند پاکستانی بنایا ہے۔ یہ ایک پر فیکٹ فلاحی ادارہ ہے۔ اپنی زکوۃ، صدقا ت اور فطرانہ وغیرہ انجمن حمایت اسلام دارالشفقت کو دے۔