دونوں کے لیے دو ماہ بہت اہم ہیں!!!!
نئی حکومت ہے اور پرانی اپوزیشن ہے، نون لیگ کا تو حکومت کے بغیر گذارا نہیں ہوتا پاکستان تحریک انصاف تو ہے ہی اپوزیشن کی جماعت، اپنے قیام سے آج تک صرف ایک مرتبہ حکومت میں آئی ہے جبکہ اس دوران میاں نواز شریف کی نون لیگ متعدد بار اقتدار کا مزہ لے چکی ہے۔ بہرحال پاکستان تحریکِ انصاف ایک مرتبہ پھر اپوزیشن میں ہے اور سڑکوں پر بھی نظر آئے گی۔ کب تک سڑکوں پر رہے گی اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان عوام کو متحرک کرنے اور اپنے بیانیے کو گھر گھر پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔ موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو میاں شہباز شریف کی حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے آئندہ دو ماہ بہت اہم ہیں۔ آٹھ ہفتوں کے دوران میاں شہباز شریف کی حکومت نے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانا ہیں اگر وہ ابتدائی دنوں میں وعدوں اور نعروں کے مطابق عام آدمی کے لیے کچھ نہ کر سکے تو پھر مسائل میں اضافہ ہو گا۔ جیسا کہ چینی کی قیمت میں اچانک اضافہ ہوا ہے اب حکومت اس کا ملبہ پاکستان تحریکِ انصاف پر نہیں ڈال سکتی اور اگر ایسا کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ صرف چینی ہی نہیں آنے والے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا اسی طرح بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ یقینی ہے میاں شہباز شریف کی حکومت کے لیے ان چیلنجز سے نمٹنا کچھ آسان نہیں ہو گا۔ اگر یہ چیزیں مہنگی ہوتی ہیں تو ان سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اثر ہر جگہ پڑتا ہے ہر چیز کی بنیادی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے بعد پھر مہنگائی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ان حالات میں بھی حکومت اگر اس کا ملبہ جانے والی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کرے گی تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ اسی مہنگائی کو بنیاد بنا کر میاں شہباز شریف عمران خان پر تنقید کرتے رہے ہیں اب ان کے اقتدار ہے وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں انہیں جواز پیش کرنے کے بجائے سہولت پیدا کرنی ہے۔ چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور لیموں قابو میں نہیں آ رہا مہنگے لیموں کی بات کرتے ہوئے کہاکہ بھارت میں لیموں اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر شاہ جہاں پور میں چور سبزیوں کے گودام سے مہنگی قیمت والے لیموں اور سبزیاں چرا کر لے گئے۔ چور ساٹھ کلو لیموں، چالیس کلو پیاز اور اڑتیس کلو لہسن لے کر فرار ہوگئے۔ میاں شہباز شریف کو یہ خبر ایک حوالے کے طور پر یاد رکھنی چاہیے یہ نہ ہو کہ یہاں بھی سبزیاں اتنی مہنگی ہو جائیں کہ چوروں قیمتی اشیاء کے بجائے سبزیاں چرانا شروع کر دیں۔ بھارت میں لیموں کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے بھارت میں لیموں تین سو پچیس روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔ پاکستان میں لیموں ایک ہزار روپے فی کلو گرام فروخت ہو رہا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد وہ عملی طور پر عوام سے دور ہیں اب اگر وہ عوام سے جڑے رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں عوام دوست فیصلے کرنا ہوں گے۔
میاں شہباز شریف خاصے متحرک رہتے ہیں وزیراعظم ہاؤس میں بھی انہوں نے دفتری اوقات صبح آٹھ بجے سے شروع کر دیے ہیں۔ وہ گذشتہ روز صبح آٹھ بجے دفتر پہنچے تو عملہ ڈیوٹی پر نہیں پہنچا تھا۔ ان حالات میں سٹاف کی دوڑیں لگ گئیں۔ انہیں چین، ترکی اور روس کی طرف سے مبارکباد پیش کی گئی ہے۔ چینی ناظم الامور نے چینی حکومت کی جانب سے نیک تمناؤں کا پیغام پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ چین وزیراعظم شہبازشریف کو مضبوط اور پختہ عزم دوست کے طور پر دیکھتا ہے، شہبازشریف کا چین میں بے پناہ احترام اور تعریف کی جاتی ہے۔ انہوں نے سی پیک کے فروغ کیلئے شہباز شریف کی کاوشوں کی تعریف کی۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے پاک چین سٹرٹیجک پارٹنرشپ کو خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا مضبوط اور قریب ترین شراکت دار ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی معاشی صورتحال کے حوالے سے نیشنل اکنامک کونسل تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ان ملاقاتوں اور اقدامات کے مثبت اثرات آٹھ ہفتوں میں عوام تک نہ پہنچے تو پرانے پاکستان کی اس حکومت کے مسائل میں اضافہ ہو گا کیونکہ عمران خان تو چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے حامی اس وقت اپنے قائد کے بیانیے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کارکنوں کے اس جوش و جذبے کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی رابطوں کا سلسلہ جاری رکھنے کے موڈ میں ہیں۔ وہ جلسوں کے ذریعے اپنے بیانیے کو گھر گھر پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔ حکومت ختم ہونے کے بعد عوامی سطح پر حمایت سے ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ وہ حکومتی کمزوریوں اور غلط فیصلوں کو عوام کے سامنے رکھیں گے ساتھ ہی ساتھ متحدہ اپوزیشن کے حوالے سے اپنے دیرینہ بیانیے کو دہراتے ہوئے کارکنوں کو حکومتی مخالف تحریک کا حصہ بنے رہنے پر قائل کریں گے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے پشاور جلسے کے حوالے سے کہا ہے کہ پشاور کے جلسے میں کارکنوں سے اہم بات کروں گا۔ اپنی آزادی اور جمہوریت کی حفاظت قوم خود کرتی ہے۔ کوئی باہر سے آکر اس کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ سولہ اپریل کو عمران خان کراچی میں جلسہ کریں گے یوں نئی حکومت کے لیے مسلسل جلسوں کا مقابلہ کرنا بھی ایک امتحان ہے۔ اب میاں شہباز شریف اور عمران خان کے مابین مقابلہ ہے کون لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ عمران خان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حکومت ختم ہو چکی ہے اسمبلی سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور براہ راست عوام سے مخاطب ہیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے عوام سے بات کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ حکومت چلانا مشکل ہوتا ہے۔