• news

سلامتی کمیٹی اعلامیہ میں سازش کا لفظ نہیں ، ساری فوج وہاں دیکھتی ہے جہاں آرمی چیف 

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی، نوائے وقت رپورٹ) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخارنے کہا ہے کہ ہم نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، پھر کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، یہ مہم پہلے بھی کامیاب نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اب ہوگی، افواج پاکستان کی قیادت کیخلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے، افواہوں کی بنیاد پر بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں، عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، دھمکی آمیز خط کے حوالے سے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیہ میں وضاحت کر چکے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تھی جس پر احتجاجی مراسلہ بھی جاری کیا گیا، پاکستان کیخلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں ہے، آرمی چیف ایکسٹینشن نہیں چاہتے، وہ وقت پر ریٹائر ہوں گے، جوہری اثاثوں کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، سابق وزیراعظم نے فوجی قیادت سے رابطہ کیا تھا، امریکہ نے فوجی اڈے مانگے اور نہ ہم نے دیے، اگر مانگتے بھی تو پاک فوج کا وہی موقف ہوتا جو وزیراعظم کا تھا، اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ حکومت کو کوئی آپشنز نہیں دیے، نو اپریل کی رات کے حوالے سے بی بی سی کی خبر سراسر جھوٹ پر مبنی سٹوری ہے، پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اس بات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے، پاک فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں  ہے، پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی، فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی؟۔ وہ اپنا کام کررہی ہے، اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ وزارت داخلہ دیکھتی ہے، احتجاجی مراسلے صرف سازش پر نہیں اور بھی کئی معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں، یہ سفارتی طریقہ کار ہے۔ جمعرات کو  پریس بریفنگ میں ترجمان پاک فوج  میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں بحث کے نکات پر بات نہیں کر سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں نہ اسے قبول کریں گے، وہ اپنی مدت پوری کرکے رواں سال 29 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ امریکہ کی جانب سے فوجی اڈے مانگے جانے کے حوالے سے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان سے اڈوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ کیا جاتا تو فوج کا موقف بھی سابق وزیر اعظم کی طرح ایبسولوٹلی ناٹ ہوتا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعظم نے سیاسی بحران کے حل کے لیے آرمی چیف سے رابطہ کیا تھا۔ میجر جنرل بابر افتخار نے اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے بھی ایسا سنا ہے، تحقیقاتی صحافت بہت آگے بڑھ چکی ہے، اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے، ایسا کوئی رابطہ نہیں ہوا، کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اسے بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے، کچھ دراڑیں ضرور وجود رکھتی ہیں جنہیں بیرونی اثرو رسوخ سے بڑھایا اور پھر اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے سیاست اور نیشنل سکیورٹی سے متعلق خیالات کو منفی شکل دی جارہی ہے، اس میں کچھ خیالات حقیقی بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کو بیرونی اثرورسوخ سے اس تیزی کے ساتھ بڑھایا جارہا ہے جسے بغیر تصدیق کے آگے شیئر کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی سوسائٹی کو ان اثرات سے بچانے کے لیے ہمیں بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، یہ حکومتی سطح پر بھی کرنا پڑے گا اور انفرادی سطح پر بھی کرنا پڑے گا، تمام اداروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، ہم نے بحیثیت ادارہ اس حوالے سے اپنے طورپر اقدامات اٹھائے ہیں، ڈس انفارمیشن کیمپین کا بہت بڑا ٹارگٹ ہماری فوج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو جنگ لڑی ہے وہ اپنے عوام کے بل بوتے پر لڑی ہے، اگر عوام فوج کے ساتھ نہ کھڑے ہوں تو جن ملکوں میں یہ حالات تھے آج ان کے حالات دیکھ لیں، کدھر گئی وہ فوج اور کیا حالت ہے اس ملک کی۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی بارڈر پر کوئی خطرہ نہیں ہے، ہم نے اس پر نظر رکھی ہوئی ہے، بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کیے جاتے رہے ہیں اس حوالے سے اہتمام بھی رہتا ہے۔ فوج کے اندر جانبدار اور غیرجانبدار کی لڑائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ فوج یونیٹی آف کمانڈ کے فیکٹر پر چلتی ہے، چیف آف آرمی سٹاف جس جانب دیکھتا ہے اسی جانب آرمڈ فورس بھی دیکھتی ہے، آج تک اس میں نہ تبدیلی آئی ہے نہ ان شاء اللہ آگے کبھی آئے گی، الحمدللہ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور پوری فوج اپنی لیڈرشپ پر فخر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کا دارومدار سیاسی استحکام پر ہے، دفاع اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، سیاسی استحکام اصل عنصر ہے جو معیشت اور سکیورٹی سمیت تمام چیزوں کو آگے بڑھاتا ہے، اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو اس سے یقینی طور پر نیشنل سکیورٹی کو نقصان پہنچے گا، انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی عمل کا حصہ تھا، جمہوریت میں یہ چیزیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اس دوران عدم استحکام ضرور آیا، جس دن نئی حکومت آئی اس دن سٹاک ایکسچینج اوپر گئی اور ڈالر نیچے آیا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی حد تک استحکام آرہا ہے، اس کو برقرار رہنے کے لیے تھوڑا وقت لگے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا اس روز ان کی طبیعت ناساز تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے، اس کی اور کوئی وجہ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی انخلا سے افغانستان میں ویکیوم آیا تھا، ابھی تک وہاں کی موجودہ حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، ان کی فوج اور ایجنسیز ابھی اس طرح سے کام نہیں کررہیں اس لیے وہاں خلا موجود ہے جس کا فائدہ وہاں موجود دہشتگردوں نے اٹھایا، ان کے خلاف وہ بھی کارروائیاں کررہے ہیں، الحمدللہ ہم اس قابل ہیں کہ دہشتگردی کی اس لہر کو پیچھے دھکیل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی ملک کا نام نہیں لوں گا لیکن اگر سی پیک کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ اس کو موخر کرنے کے لیے اقدامات کریں لیکن الحمد للہ سی پیک جاری ہے، اس کے تحفظ کی ذمہ داریاں پاک فوج خود سرانجام دے رہی ہے، یہ ایک بہت بڑا سٹرٹیجک پراجیکٹ ہے اور ہماری چین کے ساتھ دوستی کا بہت بڑا مظہر ہے، جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے ہم نے اس دوران سی پیک کی رفتار کو کم نہیں ہونے دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس بریفنگ کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج آپ کو پاکستان کی قومی سلامتی، پاکستان آرمی کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں ، آپریشن ردالفساد کے تحت حالیہ اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنا ہے اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں ہونے والی بات چیت پر بھی آگاہی دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشنز کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی اور اس میں پاکستان آرمی کے تمام فارمیشن کمانڈرز نے شرکت کی، کانفرنس کے شرکاء کو پاک فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اور خطے کے حالات کے تناظر میں درپیش سکیورٹی چیلنجز، ان کے حوالے سے سکیورٹی اور انٹیلی جنس بریفنگ دی گئیں جبکہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ حکمت عملی سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی بارڈر سکیورٹی مکمل طور پر برقرار ہے اور مسلح افواج اور متعلقہ ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ فارمیشن کمانڈر بریفنگ میں آپریشن ردالفساد کے تحت انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز اور مغربی سرحدوں کی مینجمنٹ کے حوالے آگاہ کیا گیا، پچھلے چند مہینوں میں بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں نے امن عامہ کو خراب کرنے کی بے انتہا کوشش کی لیکن ہمارے بہادر آفیسرز اور جوانوں نے ان مذموم عزائم کو بھرپور طریقے سے ناکام بنایا۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو ہلاک اور 270 کو گرفتار کیا گیا اور ان آپریشنز کے دوران 97  آفیسرز اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہماری جنگ انشاء اللہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی دوران عالمی امن کے قیام کی خاطر اقوام متحدہ کے تحت امن مشن کانگو میں تعینات پاکستان آرمی کے چھ آفیسرز اور جوانوں نے 29مارچ کو فرائض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کیا، اب تک پاکستان فوج کے 168 افسران اور جوان مختلف اقوام متحدہ مشن کے دوران بین الاقوامی امن کی کوششوں کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، ان قربانیوں کا اعتراف اقوام متحدہ میں اعلی ترین سطح پر کیا گیا۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز نے ملکی سلامتی کے حوالے سے لیے گئے اقدامات بالخصوص اندرونی سکیورٹی کی مد میں پاکستان آرمی کی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے سلسلے میں مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت، اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہترین ملکی مفاد کی ضمانت ہے، عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے، اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے، اس لیے مسلح افواج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا سبب بننے والی کوئی دانستہ یا غیردانستہ کوشش وسیع تر ملکی قومی مفاد کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن افواہ سازی کی بنیاد پر سازشوں کے تانے بانے بننا اور بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، اس حوالے سے افواج پاکستان اور اس کی قیادت کے حوالے سے ایک منظم گھنائونا پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے اور حتی کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے معاشرے میں عوام اور فوج کے درمیان تقسیم اور انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ غیرقانونی، غیراخلاقی اور ملک کے مفاد کے سراسر خلاف ہے، جو کام دشمن سات دہائیوں میں نہیں کر سکا، وہ کام ہم اب بھی نہیں ہونے دیں گے، عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، ہم اس سے باہر رہنا چاہتے ہیں، یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی تھی نہ یہ آگے کامیاب ہو گی، بہتر ہو گا کہ ہم اپنے فیصلے قانون پر چھوڑ دیں کیونکہ قانون پر عملدرآمد سے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں عسکری قیادت کا موقف بھرپور طریقے سے دے دیا گیا تھا اور اس کے بعد اس اجلاس کا ایک اعلامیہ جاری ہوا، اجلاس میں کیا بات ہوئی میں وہ ڈسکس نہیں کر سکتا کیونکہ وہ رازداری کی بات ہے، اس اجلاس کے اعلامیے کو اگر دیکھیں تو جو کچھ اس اجلاس میں طے ہوا وہ اس اعلامیے میں موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات ایسی دھمکیوں اور سازشوں کے خلاف چوکنا ہیں اور اس کے خلاف کام کررہی ہیں، اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اسکی آنکھ نکال دی جائے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اعلامیے میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا یا کیا نہیں تھا، اس اعلامیے میں میرا نہیں خیال کہیں بھی سازش کا لفظ موجود ہے، اس میٹنگ کے منٹس کو حکومت ڈی کلاسیفائی کر سکتی ہے اور ایک دو روز قبل وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے اور مسلح افواج کے سربراہ اس اجلاس میں بھی جا کر وہی اِن پٹ اب بھی دے دیں گے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے سامنے تین آپشنز رکھے جانے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں رکھے گئے تھے، وزیر اعظم آفس کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف کو اپروچ کیا گیا تھا کہ اس ڈیڈ لاک میں کچھ بچا کی بات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اس وقت آپس میں بات کرنے پر تیار نہ تھی تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم آفس گئے اور وہیں پر یہ تین آپشنز ڈسکس ہوئے کہ کیا کیا ہو سکتا ہے، ان میں سے ایک تحریک عدم اعتماد تھا، دوسرا وزیراعظم کا استعفی تھا اور تیسرا آپشن یہ تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشنز کی طرف چلے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تیسرے آپشن کو اس وقت کی اپوزیشن پی ڈی ایم کے پاس لے گئے، ان کے سامنے یہ گزارش رکھی اور اس پر سیر حاصل بحث کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کا کوئی قدم اب نہیں اٹھائیں گے اور اپنے منصوبے پر عمل کریں گے لیکن کوئی آپشن اسٹیبلشمنت کی طرف دیا گیا اور نہ رکھا گیا۔ جوہری تنصیبات اور اثاثوں پر عمران خان کے بیان پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمیں جوہری اثاثوں کے حوالے سے تھوڑا محتاط رہنا چاہیے، یہ کسی ایک سیاسی قیادت کے ساتھ منسلک نہیں ہیں، جب سے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع ہوا، جتنی حکومتیں آئیں انہوں نے پوری محنت، دیانت داری اور ملک کے ساتھ وفاداری کے ساتھ اس ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھایا اور یہاں تک پہنچایا جہاں پر ہم ہیں، تو یہ کسی ایک کا نہیں ہے اور ہماری سیاسی قیادت نے بھرپور طریقے سے پاکستان کی سالمیت کے اس پروگرام کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہمیں اسے اپنے سیاسی مباحثوں کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔ ایک اور سوال کے جواب میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ نیوٹرل لفظ شاید صحیح طریقے سے فوج اور اداروں کے موقف کی وضاحت نہیں کرتا‘فوج اے پولیٹیکل (غیر سیاسی) ہے، ہمارا آئینی اور قانونی کردار کسی قسم کی سیاسی وابستگی یا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، پچھلے 74سال میں تمام سیاسی جماعتوں کا فوج سے ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اب ہم نے اس کو عملی جامہ پہنایا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سیاسی قیادت سے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں، میں کبھی کسی کے پاس نہیں گیا تو مجھ سے کیوں آپ بار بار ملنے آتے ہیں، اس سے پہلے گلگت بلتستان پر ایک اجلاس میں بھی تمام سیاسی قیادت کی موجودگی میں یہ بات ہوئی تھی اور کسی نے کہا تھا کہ آپ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں تو آرمی چیف نے کہا تھا کہ ہم سیاست سے بالکل دور ہیں، آپ ہمیں اس میں مزید مت گھسیٹیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پچھلے ضمنی انتخاب میں کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ فوج کی طرف سے مداخلت کی گئی، بلدیاتی انتخابات میں کسی نے کوئی الزام نہیں لگایا، پہلے لوگ کہتے تھے کہ کال آتی تھیں یا فون آتے تھے، آج کوئی کہہ رہا ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے اور آگے بھی ایسے ہی رہے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے دورہ روس سے قبل اعتماد میں لیا تھا، وہ جب روس گئے تھے تو ادارہ جاتی رائے مانگی گئی تھی اور فوج اس معاملے میں ان کے ساتھ تھی کہ جانا چاہیے، اس دن کسی کے خام وخیال میں نہیں تھا کہ جس دن وزیراعظم وہاں ہوں گے، وہ اسی دن جنگ کا آغاز کردیں گے جو بہت شرمندگی کا باعث تھا۔ دریں اثناء فوجی ترجمان کا مزید کہنا تھا جنرل باجوہ اور عمران خان کے درمیان کوئی ایشو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا لاہور میں کیا جانے والا حملہ انتہائی نامناسب ہے۔ ملوث افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، ہم ایسے معاملات پر تنہا نہیں چھوڑتے۔

ای پیپر-دی نیشن