• news

حمزہ شہباز شریف پر بھاری ذمہ داری

پنجاب میں ایک نیا دور آنے کے لیے دستک دے رہا ہے۔ اس بار پنجاب میں قدرے نو آموز سیاستدان کے سر پر بھاری ذمہ داریاں ڈالی جا سکتی ہیں۔ یہ سیاستدان گرچہ نو آموز اور نوجوان ہے مگر اس کی تربیت جس گھرانے میں ہوئی وہاں تجارت اور صنعتکاری کے ساتھ ساتھ گزشتہ 32 برسوں سے سیاست کا چال چلن بھی عام رہا ہے۔ شریف خاندان نے جنرل ضیا الحق کے دور میں صنعت و تجارت کے ساتھ جب سیاسی میدان میں قدم رکھا تو کوئی بھی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ صنعتکار خاندان سیاسی میدان میں اتنا ہی کامیاب ہوگا جتنا وہ صنعت و تجارت میں ہے مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ میاں نوازشریف جیسا خاموش اور کم گو نوجوان بھی عوام کے دلوں میں بھی گھر کر جائے گا۔ یوں انہوں نے پہلے صوبائی وزیر پھر وزیراعلیٰ بن کر پنجاب کا مقدمہ یوں لڑا کہ پنجابیوں پر لگا آمروں کے سہولت کار کا داغ مٹا دیا۔ ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی شہبازشریف نے پنجاب کی باگ ڈور سنبھالی اور پنجاب میں ترقی کی راہوں کو نیا عروج دکھایا یوں بڑا بھائی وزیراعظم اور چھوٹا بھائی وزیراعلیٰ بن کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے لگے۔ عوام نے بھی انہیں خوب پذیرائی دی۔ شہبازشریف کی وزارت اعلیٰ کا دور پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا وہ ان جیسا کام کسی بھی صوبے کا وزیراعلیٰ نہ کر سکا۔
 اب اسی خاندان کا ایک فرد میاں شہبازشریف کے فرزندِ ارجمند حمزہ شہبازشریف سیاسی میدان میں اہم ذمہ داری سنبھال کر کچھ کرنے کے عزم کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ مشرف دور سے انہیں قید و بند اور یرغمال بنانے کے عوامل نے ان کی خوب سیاسی تربیت کی آمریت کے دور میں جب شریف خاندان کو جلاوطن کر دیا گیا تو پرویزمشرف نے اس وقت کے نوجوان حمزہ شہباز کو یہ کہہ کر پاکستان روک لیا کہ شریف خاندان کے گرنٹر کے طور پر حمزہ شہباز یہی رہیں گے اور کم ظرفی کے تمام حربے حمزہ شہباز پر آزمائے مگر حمزہ اپنے مضبوط اعصاب اور حوصلے کی وجہ سے مشرف کے سامنے ڈٹے رہے پھر ظلم کی رات کا خاتمہ ہوا اور شریف خاندان ایک مرتبہ پھر طاقت کے ایوانوں میں پہنچ گیا۔ حمزہ شہباز بھی اسی اتار چڑھاؤ میں ایوانوں سے ہوتے ہوئے سیاست کے نت نئے تجربات حاصل کرتے رہے۔ حمزہ شہبازشریف نے ابتلا کے اس دور میں بے مثال استقامت کا مظاہرہ کیا۔ آمریت کے دور کے مصائب جھیلنے کے بعد عمران خان کے دور حکومت میں بھی ان مقدمات میں طویل جیلیں کاٹیں جن میں حمزہ شہباز کا قصور ثابت نہیں ہو سکا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حمزہ شہباز براہِ راست اقتدار میں تو پہلی مرتبہ آرہے ہیں مگر ان کی نیٹ پریکٹس اپنے والد اور تایا سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ والد اور تایا کو حکومتی خدمات انجام دیتے ہوئے بارہا دیکھ اور سمجھ چکے ہیں جیساکہ ان کے والد ’سپیڈ شہبازشریف‘ کے لقب سے چین نے نوازا تھا۔ اب حمزہ شہباز اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا کر ثابت کر سکیں گے کہ حمزہ شہباز اپنے کاموں کی سپیڈ کی وجہ سے کیا ’بلٹ حمزہ شہبازشریف‘ کا لقب حاصل کر سکیں گے؟
 2018ء کے الیکشن کے بعد حمزہ شہبازشریف پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن کر سیاسی داؤ پیچ بخوبی سیکھ کر انہیں استعمال کرنے کے ہنر سے بھی آگاہ ہو چکے ہیں۔ اگر وہ اپنے تایا اور والد کی طرح صبر تحمل، تیزرفتاری کی سیاست اپناتے ہیں تو پنجاب میں انہیں مزید مقبولیت حاصل ہو سکتی ہے۔ حمزہ شہباز کے اُتار چڑھاؤ پابندِ سلاسل اور حکومتی ایوانوں میں ساتھ دینے والے ان کی مخلص ٹیم کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ میرے کولیگ اور منجھے ہوئے صحافی کامران گورائیہ کے بڑے بھائی عمران گورائیہ جن کی آمریت کے دور سے لے کر اب تک بہت سی قربانیاں ہیں وہ حمزہ شہباز کے ساتھ سایہ کی طرح رہتے ہیں۔ عمران گورائیہ بہت کم ایسے دن ہوتے تھے جب ان کے گھر پولیس چھاپے نہ مارتی تھی۔ اس لیے وہ اکثر و بیشتر گھر سے باہر ہی سوتے تھے گو کہ عمران گورائیہ ممبر اسمبلی منتخب تو نہ ہو سکے مگر رکن پارلیمنٹ سے کہیں زیادہ پارٹی کے لیے خدمات انجام دیں۔ اس طرح اپنے والد کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے کبیر تاج نے بھی شریف خاندان کے ساتھ وفاداری نبھانے کی مثالیں قائم کر رکھی ہیں۔ سید توصیف شاہ اور بہت سے کارکنوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں مگر وقت اور جگہ کی کمی کی وجہ سے نہیں کر پا رہا۔ امید ہے کہ آج کے فروٹ فل نتیجے کی روشنی میں ان جانثاروں کی بھی سنی جائے گی۔ 
اس وقت ایک طرف تحریک انصاف دوسری طرف قاف لیگ ان کے مقابلے میں یکجان ہیں۔ انہیں عددی برتری حاصل ہے۔ دونوں جماعتوں میں پرانے سیاسی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد موجود ہے مگر تحریک انصاف اور قاف لیگ کے منحرف ارکان کہہ لیں یا باغی ارکان نے جس طرح پلٹا کھایا ہے اس نے پنجاب کے سیاسی حالات میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ قاف لیگ کے ناراض ارکان چند ایک ہیں مگر جہانگیر ترین اور علیم خان کی قیادت میں کافی ناراض ارکان تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کو تیار ہیں اور اوپر سے پیپلزپارٹی والے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ قاف لیگ نے فی الحال پوری کوشش کر کے 16 اپریل تک ایوان میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کو مؤخر کرا دیا ہے مگر اب یہ وقت بھی قریب آرہا ہے۔ امید ہے حمزہ شہباز شریف اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے مقابلے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پنجاب اور پنجاب کی عوام کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں گے۔ ماضی کی حکمران پارٹی نے سیاست و حکومت کے ایوانوں میں جس قدر عدم استحکام، تشدد اور غیر یقینی کی بیل پروان چڑھائی ہے۔ امید کرتا ہوں کہ حمزہ شہباز سیاست کی اخلاقیات و روایات کا حسن دوبارہ اجاگر کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ 

ای پیپر-دی نیشن