پاک امریکا تعلقات
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان امریکا کے تعلقات ساس بہو جیسے بھی رہے ہیں یعنی دونوں میں نوک جھونک بھی چلتی رہی۔ کبھی بڑے اچھے تعلقات بھی ہوتے ہیں تو کبھی اس میں ناراضی بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر دونوں کے تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔آج کل پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر امریکا کا تذکرہ زبان زد عام ہے۔ سابق حکمران جماعت تحریک انصاف نے اپنے خلاف ہونے والی تحریکِ عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا ہے جبکہ موجودہ حکمران یعنی اپوزیشن کے اتحاد نے عمران خان اور ان کی جماعت کے اس الزام کو نہ صرف رد کیا ہے بلکہ شہباز شریف نے تو وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد کسی بھی بیرونی سازش کے خدشے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لیے بیرونی سازش ثابت ہو جائے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔
جہاں تک امریکا کی بات ہے تو وائٹ ہاؤس نے کسی بھی قسم کی سازش میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پاکستان امریکا کے تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں۔سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان امریکا کا قریبی اتحادی رہا ہے۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے چین اور امریکا کے درمیان تعلقات کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر جب سوویت یونین نے افغانستان میں چڑھائی کی تو امریکا اور پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں سوویت یونین کا راستہ روکا گیا۔ سوویت یونین جب افغانستان سے رخصت ہوا تو پاکستان اور امریکا کے درمیان موجود تعلقات میں سرد مہری آ گئی جو 1999ء میں مشرف حکومت کے قیام میں آنے تک قائم رہی۔
پھر 2001ء میں نائن الیون ہوا تو افغانستان میں جنگ کے لیے امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے ہر لحاظ سے اس جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا۔ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کا اربوں ڈالرز کا نہ صرف نقصان ہوا بلکہ ہزاروں جانیں بھی قربان کیں۔ اس جنگ کے دوران بھی امریکا نے پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق، صرف جنرل مشرف کے دور میں امریکا نے پاکستان کو مختلف مد میں تقریباً 19ارب ڈالرز کی امداد دی۔ پھر اس کے بعد کیری لوگر بل کے تحت 2010ء سے لے کر 2015ء پاکستان کو سات ارب ڈالرز کی امداد دی گئی اور اس کے بعد بھی پاکستان میں مختلف ایسے منصوبے ہیں جو امریکی تعاون سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ امریکا چونکہ ایک سپر طاقت ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے تو ہمیں بھی اس لحاظ سے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
دونوں جانب سے گلے شکوؤں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن اس سرد مہری کو اب ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت لاکھوں پاکستانی امریکا میں موجود ہیں جو پاکستان میں اربوں ڈالرز زر مبادلہ بھیجتے ہیں جس کا پاکستان کی معیشت میں انتہائی اہم کردار ہے۔پھر کورونا وبا کے دوران امریکا نے پاکستان کو مفت ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی۔ اس کے علاوہ پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد امریکی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اس لیے امریکا کو نظر انداز کرنے یا اس پر الزام لگانے کی پالیسی کو ترک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ روس اور امریکا کے درمیان پاکستان کو توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یوکرائن روس جنگ میں کسی ایک فریق کی حمایت ہماری خارجہ پالیسی کا جزو نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ یوکرائن مالی اور عسکری لحاظ سے روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ویسے بھی پاکستان نے کبھی بھی کسی جارح قوم یا فوج کی حمایت نہیں کی۔ پاکستان نے افغانستان جنگ میں بھی ایک حد تک امریکا کا ساتھ دیا اور کبھی بھی براہِ راست افغان جنگ میں امریکا کے ساتھ ملوث نہیں ہوا۔
عمران خان حکومت نے جس طرح امریکا کے ساتھ تعلقات کو سرد خانے میں دھکیلا ہے، اب نئی حکومت اور ہماری عسکری قیادت کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ ان تعلقات کو دوبارہ بحال کریں تا کہ دنیا کی ایک بڑی طاقت کے ساتھ ہمارے تعلقات معمول کی سطح پر آ سکیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ نے بھی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ بھی امریکا کے ساتھ مخاصمت نہیں چاہتے۔ وہ بھی امریکا اور چین دونوں کے ساتھ بیک وقت تعلقات کو آگے بڑھانے کی حمایت کرتے ہیں اور پاکستان کسی بھی بلاک کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا چین کے ساتھ قریبی سٹریٹجک تعلق ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری جیسے منصوبے سے عیاں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح ہماری امریکا کے ساتھ بہترین سٹریٹجک تعلقات کی طویل تاریخ ہے اور امریکا ہماری سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان کسی ایک ملک سے تعلقات خراب کیے بغیر دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسی تقریب میں یہ بھی کہا کہ وہ روس کے جائز تحفظات کے باوجود روس کی یوکرائن پر یلغار کی حمایت نہیں کرتے، اس مسئلہ کو افہام و تفہیم سے حل ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی حکمرانوں کی بھی چاہیے کہ وہ یہی پالیسی لائن لے کر خارجہ پالیسی کو ترتیب دیں تا کہ پاکستان امریکا جیسے اہم ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو سرد مہری سے نکال کر معمول کی سطح پر آنا چاہیے۔