مشرف دور میں سیاست میں آنے والے حمزہ 21 ویں وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے
لاہور (رپورٹ ندیم بسرا) نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اڑتالیس برس کی عمر میں پنجاب کے 21 ویں وزیراعلیٰ بنے۔ حمزہ شہباز 6 ستمبر 1974ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد شہباز شریف تین مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے تایا نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم پاکستان رہے۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں اقتدار میں اڈیالہ جیل رہے اور نواز شریف کے فیملی سمیت جدہ منتقل ہونے کے بعد کاروبار حمزہ شہباز نے سنبھالے رکھے۔ انہوں نے اپنے تایا اور والد سمیت خاندان کے دیگر لوگوں کی جلا وطنی کے بعد سیاست میں باقاعدہ حصہ لیا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں لاہور کے این اے 199 حلقے سے بلامقابلہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2013ء کی اسمبلیوں میں ممبر قومی اسمبلی این اے 119 سے دوبارہ منتخب ہوئے۔ 2018ء کے انتخابات میں پی پی 146 سے پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور عثمان بزدار کے مقابلے میں وزارت اعلیٰ کے الیکشن میں حصہ لیا مگر مسلم لیگ ن کو 156 ووٹ ملے اور عثمان بزدار 186 ووٹ لیکر پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ اس وقت سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی بنے۔ عمران خان کے خلاف لاہور سے مہنگائی مکائو مہم کا آغاز کیا اور مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف نے اسلام آباد اور راولپنڈی تک یہ مارچ مکمل کیا۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پنجاب اسمبلی میں جمع ہوئی۔ اس سے قبل پنجاب سے بزدار حکومت کے خلاف ترین گروپ اور علیم خان گروپ اپنی تحریک کو کامیاب کر چکا تھا۔ بزدار کی حکومت کے خلاف اسد کھوکھر بھی اعلان بغاوت کر چکا تھا۔ حمزہ شہباز نے تحریک انصاف کے ناراض دھڑوں کو اپنے ساتھ ملایا اور سیاسی حکمت عملی سے اس کا فائدہ اٹھایا۔ مسلم لیگ ن نے اپنے ممبر اسمبلی اور اتحادیوں کو تقریباً دو ہفتے ایک ہی جگہ رکھا۔ اس دوران عدالت میں تحریک انصاف اور اتحادی چلے گئے۔ سپیکر اسمبلی چودھری پرویز الہٰی نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری سے اختیارات واپس لے لئے جس کو عدالت نے بحال کر دیا۔ عدالت نے 16 اپریل کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا فیصلہ دیا۔ یوں گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں دس گھنٹوں کی شدید ہنگامہ آرائی کے بعد چودھری پرویز الہٰی کے مقابلے میں حمزہ شہباز کو پنجاب کا اکیسواں وزیراعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔