10 سے 15 ہزار لوگ جمع کرکے تنقید کی جائے تو فیصلے کیوں دیں : چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ 10 سے 15 ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں۔ سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اسکی پروا نہیں، آئین کے محافظ ہیں، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے، کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کا آغاز کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے موقف اپنایا کہ ابھی تک نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی نہیں ہوسکی، اگر مناسب سمجھیں تو نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظار کرلیا جائے کیونکہ تین چار روز میں نئے ٹارنی جنرل کی تعیناتی کا امکان ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے تھے۔ نئے اٹارنی جنرل نے کوئی موقف دینا ہوگا تو بعد میں دے دیں گے، عدالت چاہتی ہے کہ صدارتی ریفرنس کو چلانا چاہیے، اس معاملے میں ایک درخواست تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے بھی دائر کی ہے، اس دوران وکیل بابر اعوان نے استدعاکی کہ تحریک انصاف کی درخواست پر فریقین کونوٹس کردیں، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست جس ایشو سے متعلق ہے اس پر عدالت میں بات ہو رہی ہے، جن کو نوٹس کرنا ہے وہ تمام فریقین کمرہ عدالت میں موجود ہیں ، یہ آئینی بحث کا مقدمہ ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ صدراتی ریفرنس آیا ہے اس پر سماعت کو آگے چلائیں گے، اس دوران ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیازاللہ خان نیازی نے دلائل میں مؤقف اپنایاکہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے۔ پیسے لیکر ضمیر نہیں بیچا جاسکتا اگر کسی کا ضمیر جاگا ہے تو اسے رکنیت سے مستعفی ہو کر عوام کے پاس جانا چاہئے ۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے مزید کہاکہ کروڑوں روپے لینے والا قانون سازی کیسے کرسکتا ہے ایسے تو پیسے دیکر ارکان اسمبلی سے ملک مخالف قانون سازی کرائی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد اور پنجاب میں جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ تمام سٹیک ہولڈر عدالت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اب تو منحرف ارکان عوام میں بھی نہیں جاسکتے۔ اس دوران جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ کچھ لوگ چاہتے ہیں انحراف کی اجازت ہو کچھ چاہتے ہیں نہ ہو؟۔ آج کل آسان طریقہ ہے دس ہزار بندے جمع کرو کہو میں نہیں مانتا۔ پارلیمان نے آئین کے آرٹیکل 63 اے میں تاحیات نااہلی کا واضح نہیں لکھا۔ پارلیمنٹ نے یہ جان بوجھ کر نہیں لکھا یا غلطی سے نہیں لکھا گیا۔ پارلیمنٹ موجود ہے معاملہ دوبارہ اس کے سامنے پیش کردیں عدالت کے سر پر کیوں ڈالا جارہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ آئین کی تشریح کرنا عدالت کا ہی کام ہے۔ سینٹ الیکشن کے بعد بھی ووٹ فروخت ہو رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو خود ترمیم کرنے دیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ دس سے پندرہ ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں، ہم اس عدالت کے فیصلوں کا احترام چاہتے ہیں، عدالت اپنا آئینی کام سر انجام دیتی ہے، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن گالیوں کے باوجود اپنا کام کرتے رہیں گے، عدالت کیوں آپ کے سیاسی معاملات پر پڑے؟۔ پارلیمانی جمہوریت کی ایک بنیاد سیاسی جماعت ہے، سیاسی جماعتوں کو چار صورتوں میں آرٹیکل 63 میں تحفظ دیا گیا ہے، ضیاء الحق نے پارٹی سے انحراف پر پابندی کی شق آئین سے نکال دی تھی، ہارس ٹریڈنگ پر فیصلے آئے تو 1998 میں آئین میں ترمیم کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ 2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا، آئین کی خلاف ورزی چھوٹی بات نہیں ہے، کئی لوگ آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل چھ پر چلے جاتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پرآرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا، صدراتی ریفرنس کے مطابق منحرف ارکان پر آرٹیکل 62 ون کا اطلاق ہونا چاہیے، عدالت یہ تعین کرے گی کہ آئین سے انحراف کا کیا نتیجہ ہوگا، آئین کی خلاف ورزی کرنے والا یا تو اپنی خوشی پر جائے گا یا قیمت ادا کرنی ہو گی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اپنایا کہ پارٹی سے انحراف رکن اسمبلی کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کے ذریعے تاحیات نااہلی ہوئی تو آرٹیکل 95 کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 95 کا سوال ابھی عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان نے سوال کیا کہ کیا عدالت اپنی طرف سے تاحیات نااہلی شامل کر سکتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح میں عدالت تاحیات نااہلی قرار دے چکی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے دلائل مکمل ہوئے تو تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست کا میمو دیکھ لیں۔ بابر اعوان نے کہاکہ درخواست کا میمو گیٹ سے تعلق نہیں۔ جس پر جسٹس جمال خان نے کہاکہ اب گیٹ بند کرنا ہو گا۔ بابر اعوان نے جواب دیا کہ گیٹ بند کرنے کا موقع تھا لیکن ضائع کردیا گیا۔ اس وقت صرف وزیراعظم ہیں کابینہ نہیں، ملک میں 8 دن سے کوئی حکومت نہیں، نہ اٹارنی جنرل ہے نہ وزیر قانون ہے حکومت کی جانب سے کون دفاع کرے گا؟۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ پی ٹی آئی کو نوٹس صدارتی ریفرنس میں کیا گیا تھا ابھی تحریک انصاف کی درخواست کی باری نہیں آئی۔ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا آپ سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید کے دلائل اپنائیں گے، بابر اعوان نے جواب دیا کہ خالد جاوید خان کے دلائل کسی صورت نہیں اپنائوں گا کیونکہ سابق اٹارنی جنرل نے دلائل میں قلابازیاں کھائیں تھیں، جس پر عدالت نے بابر اعوان سے کہا کہ وہ صدارتی ریفرنس پر اپنے دلائل دیں تو بابر اعوان نے کہاکہ انہوں نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر سے مشاورت کرنی ہے اس لئے صدارتی ریفرنس پر دلائل کیلئے کل تک کا وقت دیں کل دلائل دوں گا، عدالت نے بار اعوان کو کل دلائل دینے کی اجازت دی تو بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل مصطفی رمدے نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ریفرنس پی ٹی آئی حکومت کا نہیں صدر پاکستان کا ہے اور صدر پاکستان کا ریفرنس برقرار ہے ہر صورت سنیں گے اور یہ عدالت آرٹیکل 63 اے پر اپنی رائے بھی دے گی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینا اور مخالف پارٹی کو ووٹ دینا الگ چیزیں ہیں، مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے، ایڈووکیٹ مصطفی رمدے نے کہاکہ مستعفی ہونے جیسا انتہائی اقدام واحد حل کیسے ہو سکتا ہے؟۔ پارٹی سربراہی کی پابندی کرنا غلامی کرنے کے مترادف ہے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ایسی بات سے آپ پارلیمانی جمہوریت کی نفی کررہے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے سے اختلاف ہے تو الگ ہو جائیں گے۔ ضمنی الیکشن آزاد حثیت سے لڑ کر واپس آیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جسے آئین نے منحرف قرار دیا ہے، اپ اسے معزز کیسے بنارہے ہیں؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ اگر آرٹیکل 63اے میں تاحیات نااہلی ہوجائے تو آئین کا آرٹیکل 95غیر موثر ہو جائیگا۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے اور پچانوے ایک دوسرے کو کیسے غیر موثر کرتے ہیں۔ آرٹیکل پچانوے اور آرٹیکل تریسٹھ اے میں توازن پیدا کرنا ہو گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل پچانوے پارٹی سے انحراف کرنے کے رحم و کرم پر نہیں ہوتا۔جسٹس مینب اختر نے بی این پی کے وکیل سے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت قرار دے کہ عدم اعتماد میں ہر رکن کو آزادانہ ووٹ دینے کا حق ہے، آرٹیکل تریسٹھ اے کو آرٹیکل 62 اور 63 کیساتھ تو ملا کر ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کوئی شکایت ہے یا نہیں کیا ہورہا ہے ہم نہیں جانتے، ایڈووکیٹ مصطفی رمدے نے کہاکہ یہ بدقسمتی ہے جو اسلام آباد اور لاہور میں ہوا۔ اس دوران بابر اعوان نے کہاکہ ویڈیو معاملے پر دو رکن الیکشن کمشن گئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ بابر اعوان نے جو بات کی ہے اس سے لگتا ہے کہ انکی جماعت تحریک انصاف بھی سنجیدہ نہیں ہے ازخود نوٹس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے پیرامیٹرز طے کردیے ہیں، بابر اعوان صاحب ہمیں مایوسی ہوئی ہے آپکی جماعت نے الیکشن کمیشن میں درخواست دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمل نہیں کیا۔ اس پر بابر اعوان نے وضاحت کی کہ سینٹ کے انتخابات میں دو جماعتوں کے ووٹ فروخت ہوئے، عبدالحفیظ شیخ کو شکست ووٹ بکنے سے ہوئی اور چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں بھی سب نے دیکھا کیا ہوا، شفاف انتخابات الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے، چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے وقت پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی، اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ میں کوئی شکایت نہیں کر رہا سیاسی جماعتوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ پارلیمانی جمہوریت کا دفاع کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ ریفرنس سے لگتا ہے آئین میں نقص نہیں، نقص ہم میں ہے، ایڈووکیٹ مصطفیٰ رمدے نے سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کاذکر کیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اسکی پروا نہیں، ہم آئین کے محافظ ہیں، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے، کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ بی این پی کے وکیل نے کہاکہ جس ریفرنس میں آڈیو وڈیو کا ذکر کیا گیا اس پر حکومت نے خود کچھ نہیں کیا، بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی وفاق نے کچھ نہیں کیا، اسلام آباد اور پنجاب میں جو ہوا وہ بھی عدالت کے سامنے ہے۔ بابر اعوان نے کہاکہ سینٹ الیکشن میں آڈیو وڈیو ثبوت لے کر ہمارے دو ممبران اسمبلی الیکشن کمیشن گئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دو ارکان اسمبلی الیکشن کمشن گئے لیکن آپ کی جماعت نہیں گئی، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے کہ منحرف رکن کے خلاف کاروائی کرے، ممکن ہے کہ پارٹی سربراہ کوئی کاروائی نہ کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انحراف کرنے والا اپنے عمل کی وضاحت دے۔ جسٹس منیب اخترنے کہاکہ پارلیمانی جہموریت کا حسن ہی اکثریت ہوتی ہے۔ اس دوران ایک اور درخواست گزار وکیل احسن عرفان نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکہ اگر کوئی منحرف رکن اپنے عمل کی وضاحت کر دے تو کیا ہو گا؟۔ وکیل احسن عرفان نے جواب دیا کہ وضاحت کردے گا تو پھر کارروائی نہیں ہو گی کیونکہ آئین کے مطابق ممبر کے پاس پارٹی سے انحراف کے خلاف وضاحت کے لیے تین فورم ہیں۔