انقلاب اور تبدیلی میں فرق،اب کیا ہوگا؟
سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاست اور ان کے پونے چار سالہ حکومتی اقدامات پر بات ہو سکتی ہے۔ ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد وہ جس طرح اجتماعات کر رہے ہیں اور جس طرح عوام رسپانس دے رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ جس قوم کو ہجوم کہا جا رہا تھا وہ اب ہجوم قوم بن رہا ہے۔ عمران خان نے 10اپریل کے لیے لوگوں کو اپنے اپنے شہروں میں نکلنے کی کال دی تھی۔ لوگ بڑی تعداد میں نکلے اور پھر باقاعدہ جلسوں کا شیڈول جاری کیا گیا۔ پہلا جلسہ پشاور میں دوسرا کراچی میں ہو چکا ہے۔ تیسرا دو تین روز بعد 21اپریل کو لاہور میں ہوگا۔
عمران خان کو غیر روایتی سیاستدان کہا جاتا ہے اور وہ سیاست میں کئی کچھ غیر روایتی کر رہے ہیں۔ جلسوں میں انہوں نے رنگ بھرنے کے لیے سازونغمات کو متعارف کرایا اور اب کراچی کے جلسہ کے ساتھ لوگوں کو اپنے اپنے شہروں میں نکلنے کو کہا اور لوگ واقعی بڑی تعداد میں نکلے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اتنے لوگ اتنی بڑی تعداد میں کبھی نہیں نکلے۔ کراچی کا اجتماع بھی مقامی ا ور عالمی میڈیا کے مطابق تاریخی تھا۔ عمران خان کی حکومت ختم کی گئی۔ عمران خان نے پشاور کے بعد کراچی میں بھی عدلیہ پر بات کی اور رات کو عدالت کھولنے پر دکھ کا اظہار کیا اور یہ باتیں انہوں نے بڑی عزت و احترام کے ساتھ کیں۔ عمران خان کی حکومت گرانے میں پاک فوج کی طرف بھی کچھ لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف ایک مہم جاری ہے۔ جس کا فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں بھی سخت نوٹس لیا گیا۔ ماضی بعید نہیں ماضی قریب میں آج کی سب سے بڑی حکومتی پارٹی کی طرف سے پاک فوج کے خلاف کس طرح جرنیلوں کے نام لے کر کردارکشی کی جاتی رہی اور عدلیہ کے بارے میں کیا کچھ نہ کیا گیا جس پر نہال ہاشمی، طلال چودھری اور دانیال عزیز کو نااہلیت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے رسوا کن بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ آج تحریک انصاف کو بھی اداروں سے تحفظات ہیں مگر اس پارٹی کی طرف سے ان کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا گیا۔ عمران خان نے کراچی کے جلسہ میں شمالی وزیرستان میں شہید ہونے والے پاک فوج کے سات جوانوں کا ذکر کیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوہزار فوجی اور نوے ہزار سویلین امریکہ کی جنگ میں جاں بحق ہوئے وہ مزید ایسی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کو اس انکار کی وجہ سے اقتدار سے سازش کے ذریعے الگ کیا گیا ہے۔ ادھر عمران خان پاک فوج کے لیے ایسے ہمدردانہ جذبات رکھتے ہیں ادھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں علی وزیر اور محسن داوڑ پاک فوج کے خلاف زہر فشانی کرتے رہے۔ محسن داوڑ نے بھیانک الزام لگایا کہ پاک فوج کے طیاروں نے افغانستان میں سرحد پر وزیرستان سے نقل مکانی کرکے جانیوالے پاکستانیوں پر بمباری کرکے 40افراد کو مار ڈالا۔ ادھر علی وزیر جو باڑ گرانے اور اس کی تاروں سے جرنیلوں کو پھانسی دینے کی بات کرتا تھا وہ بھی پاک فوج پر زہر کے نشتر برساتا رہا۔ اس اجلاس میں سات شہدا کا ذکر ہوا نہ ہی علی وزیر اور محسن داوڑ کی ہرزہ سرائی پر کوئی جواب دیا گیا۔ مرکز میں 16جماعتی اتحاد کی حکومت کے قیام کے بعد دو روز قبل پنجاب میں بھی اتحادی حکومت قائم ہو گئی۔ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ ان کو 197ووٹ ملے جن میں 22تحریک انصاف کے منحرف ارکان بھی شامل ہیں، انہوں نے فلورکراسنگ کر لی۔ ان سے ووٹ کس اعتماد کے ساتھ کاسٹ کرائے گئے ان کو کیا سمجھایا اور بتایا گیا؟ اس اجلاس میں جو دھینگا مشی ہوئی۔ ڈپٹی سپیکر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دوست مزاری بھی منحرف ارکان میں شامل ہو گئے تھے۔ سپیکر اسمبلی پرویزالٰہی جو وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار تھے ان پر بھی تشدد ہوا، ان کا بازو توڑ دیا گیا۔ پولیس کو ایوان کے اندر آنا پڑا۔ ہم کس قسم کی جمہوری مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ مرکز میں حکومت بدلی گئی پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اس تبدیلی کا بنیادی مرکز مسلم لیگ ن ہی قرار پائی ہے۔ تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو پرویز الٰہی کی کبھی زرداری صاحب سے کبھی شہبازشریف اور کبھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔ عمران خان کے خلاف ان کا ایک تضحیک آمیز انٹرویو بھی نشر ہوا۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے اتحادی بھی کھسکنے لگے اور پھر پرویز الٰہی تو وزیراعلیٰ بننے کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ مل گئے مگر اس وقت تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ یہ پاکستان کی سیاست ہے جس میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا بڑا مطالبہ فوری انتخابات کا ہے جو پورا بھی ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے اپنے رویے سے سکرپٹ روک دیا ہے۔