روح کی سیلفی
جدید دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہم دور جدید کے انسان جو اپنے موبائل فون کے بنا خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔۔ پل پل دنیا کے گلوبل ولیج میں خودکو اپ ڈیٹ رکھتے ہیں۔۔ ہر قدم اپنی سیلفی لیتے سب کو اپنے بارے میں اپ ڈیٹ رکھتے ہیں۔۔ مگر کیااپنے جدید اسمارٹ فون سے رنگین سیلفی لیتے ہوئے کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنے جسم کی ظاہری سیلفی لے کر اسے رنگوں سے مزین دیکھ کر خود کو خوبصورت دیکھ کر کتنا خوش ہوتے ہیں مگر کبھی سوچ کے بے رنگ پنوں پر یہ الفاظ لکھے دیکھنے کو ملیں کہ ‘‘کیا آپ اپنی روح اور دل دماغ کی سیلفی لیں تو کیا انہیں بھی اتنا دلکش اور چمکدار رنگوں سے مزین خوبصورت پائینگے؟
میں نے جب اپنے آپ سے یہ سوال کیاتو یک لخت جیسے خاموشی ہر طرف چھا گئی جیسے میرے ارد گرد کی کائنات کی چلتی سانسیں تھم گئیں ہوں۔میرا دل سناٹے میں آ گیا۔۔ جسم کپکپانے لگا۔۔ اور روح تھرا سی گئی۔ کیا میں اپنے باطن تک رسائی پا کر اسے دیکھنا چاہوں گی۔ کیا میں اپنے وجود کے گہرے سمندر میں اتر کر ذات کے جزیروں تک پہنچ پاؤں گی۔کیا میں اپنے دماغ اور دل اور روح کے جزیروں تک جا کر خود کو اندر تک چھان کھنگال سکوں گی۔ کیا حال سے ماضی کا سفر کرنا آسان ہوتا ہے۔ہوش سنبھالنے تک سے اب تک کے لمحہ موجود کی زندگی کا تجزیہ کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا مگر اس سوال کے جواب کی تہہ تک پہنچنے اور صحیح جواب دینے کیلئے یہ جائزہ ضروری تھا زندگی کے درد کے سمندر کی تہہ سے سچ کے موتی کھنگالنا ضروری تھے کہ سمندر زیست کی طوفانی لہریں نجانے انسان کو کب کہاں لا کر پٹخ دیں ساحل پر لا کر ڈبو دیں یا آفت نا گہانی کے طوفان سے یک لخت باہر نکال کر ساحل پر پھینک دیں اور اس ساری آزمائشوں میں کب کہاں دل دماغ روح نے یکجا ہو کر عجز کے جائے نماز پر بیٹھکر رب کائنات کا شکر ادا کیا اور کب کہاں شر کی نفسانی یلغار کے سامنے بے بس ہو کر رب واحد کو پکارا۔۔ کب کہاں صبر کے دامن کو پکڑ کر رب کی رضا کے سامنے سر جھکایا۔۔۔ کب کہاں ندامتوں کے پانی سے روح پر لگے گناہوں کو دھویا۔۔ اس ایک سیلفی لینے کے لئے یہ جاننا ضروری ٹھرتا ہے اور ایسے آگہی کے جان لیوا عالم میں جبکہ ذات اور وجود کٹہرے میں کھڑے ہوں ‘‘دل کے آتشدان میں جلتے لمحوں کی آنچ کی دھیمی حدت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے مگر ان مراحل سے گزرنے کے بعد ہی ہم اپنی روح کی سیلفی لینے کی ہمت کر سکتے ہیں۔۔
اور اب یہی مراحل مجھے درپیش تھے اور پھر میں نے رب تعالی کے با برکت نام سے آغاز کرتے ہوئے وقت کے دریا میں چھلانگ لگا دی تاکہ لمحوں کی لہروں پر سفر کر کے اس کڑے امتحان سے گزر سکوں۔۔ بہت دیر تک سفر کرنے کے بعد گیان دھیان کے ساحل پر جب میری خاموشی نے آنکھیں بند کر کے روح دل اور دماغ کی طرف دھیان کیا تو جیسے میری کائنات کی تھمی سانسیں چلنے لگی ہوں اور میں نے دیکھا کہ دل درگاہ میں میری روح حالتِ سجدہ میں مصروف عبادت ہے اور میں نے اپنی آنکھ کے کیمرے سے جب سیلفی لی تو بخدا وہ اتنی ہی صاف اور دلکش رنگوں سے مزین دیکھی جتنا میں اپنے ظاہر کو دیکھتی ہوں شکر الحمدْللہ کہتے ہوئے میں بھی دل درگاہ میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو گئی کہ لاکھوں کروڑوں سجدے بھی شکر کے ادا کروں تو کم ہیں رب تعالی کی اس عطا کے سامنے شکر الحمدْللہ شکر الحمدْللہ شکر الحمدْللہ‘‘دل کے پاس چشمِ بینا نہ ہو تو وہ روح کی پراگندگی اور پاکیزگی کو دیکھ نہیں سکتی دل دنیاوی منفی خیالات کی آلودگی اور کثافتوں سے بھرا ہو تو اسکی آنکھ میلی ہو جاتی ہے اور بینائی دھندلا جاتی ہے پھر وہ روح کو دیکھنے والی نظر کھو بیٹھتا ھے۔۔۔ ‘‘
رب کریم کی محبت اور خوف سے آنکھوں سے بہنے والا پاک پانی دل دماغ روح پر لگے گناہوں کی سیاہیاں دھو ڈالتا ہے اور زبان سے نکلنے والے الفاظ اور سنگدل روئیوں کی معافی مانگتے رہنے سے دل اور روح کی صفائی کرتے رہنے سے ہی عافیت کی روشنی میسر آتی ہے اور پھر اس روشنی میں روح کی سیلفی بہت صاف اور واضح اور خوبصورت رنگوں سے مزین نظر آتی ہے۔