چاغی جیسے سانحات سے بچنے کی ضرورت
بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے۔ جہاں مختلف زبانوں ، ثقافتوں اور رسوم و رواج کے حامل لوگ رہتے ہیں۔ ان سب کو راضی رکھنا ساتھ لے کر چلنا ایک کٹھن کام ہے۔ مگر کسی بھی حکومت کی کامیابی اس بات سے اظہر ہوتی ہے کہ وہ کس طرح ایک کثیر الجہتی صوبے کو کنٹرول کرتی ہے۔ قبائلی سسٹم اور وسیع رقبہ بھی یہاں ایک ایسا عنصر ہے جو حالات اور واقعات کو نیا رخ عطا کرتا ہے۔ بلوچی، پشتو، مکرانی، براہوی بولنے والے یہ لوگ صدیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے درمیان رشتہ داریاں بھی ہیں۔ دوستی بھی اور باہمی لڑائی جھگڑے بھی۔ مگر یہ متنوع معاشرتی اقدار کے باوجود ایک قبائلی نظام میں جڑا صوبہ ہے۔ جہاں کا نظام حیات ابھی قدامت پرست ماحول سے باہر نہیں نکلا۔
جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا وسیع رقبہ بنجر اور بیابان ہے۔ ویران دشت، ناہموار پہاڑی سلسلے بلند و بالا پہاڑ خشک آتش فشانی سلسلہ کی نشانیاں ہیں۔ اس آبی قلت کی وجہ سے بلوچستان میں روزگار کے وسائل کم ہیں۔ صدیوں سے یہ آبی قلت یہاں کے عوام کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں آبادی بھی کم اور دور دور پھیلی ہوئی ہیں۔ ان نامساعد حالات نے یہاں کے لوگوں سخت کوش بنا دیا ہے۔ بلوچستان کے ایک طرف افغانستان اور ایران کا سینکڑوں میل طویل بارڈر ہے جو پہاڑی اور صحرائی علاقوں پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف بحیرہ عرب کا کئی سو میل تک پھیلا ساحل سمندر ہے۔ زرعی اور صنعتی روزگار نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا بڑا ذریعہ روزگار، افغانستان اور ایران سے سمگلنگ ہے جو قدیم دور سے جاری ہے۔ تمام تر اقدامات کے باوجود اسے ختم نہیں کیا جا سکتا، صوبے کی باسیوں کی اکثریت کا روزگار اسی سے وابستہ ہے۔ چمن کے راستے افغانستان سے اور تفتان کے راستے ایران سے جبکہ سمندر کے راستہ ایران اور مڈل ایسٹ سے سمگلنگ کا یہ دھندا عروج پر ہے۔ ایران سے بڑے پیمانے پر اشیائے خورد و نوش، کراکری، قالین ، چادریں، کمبل کے علاوہ سب سے اہم ذریعہ ایرانی پٹرول ہے جو سمگل کر کے جان ہتھیلی پر رکھ کر بلوچستان کے لوگ لاتے ہیں۔ افغانستان سے پھل ،کراکری، اسلحہ، ٹائر، غیر ملکی سامان ، کپڑا، منشیات وغیرہ سمگل ہوتی ہیں۔ ان کے بدلے میں پاکستان سے آٹا ، چاول ، گندم، چینی و دیگر زرعی اجناس سمگل ہو کر ایران اور افغانستان جاتا ہے۔ آج تک کوئی ایسا میکنزم طے نہیں ہو سکا تیار نہ ہو سکا جس سے اس سلسلے پر قابو پایا جا سکے۔
سمگلنگ کا یہ کاروبار سرحدی عملے کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ چاہے وہ خفیہ چور راستوں سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے اور بلوچستان کے عوام کا ایک بڑے طبقے کا ذریعہ روزگار بھی۔ اسی لیے ہر حکومت اس سے صرف نظر کرتی ہے۔ بلوچستان کی مارکیٹیں شاپنگ سینٹرز سمگل شدہ سامان سے بھری ہوئی کسی غیر ملکی مارکیٹ کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ یہ سامان چمن، چاغی، یا جس بھی راستے سے آتا ہے وہاں موجود چیکنگ کے لیے تعینات عملہ ہر گاڑی سے رقم وصول کرتا ہے جسے نذرانہ کہیں یا رشوت یہ آپ کی مرضی ہے۔ روزانہ ہزاروں گاڑیاں سامان لاتی لے جاتی ہیں جن میں ٹرک بھی شامل ہیں اور ٹرالے بھی اس کے علاوہ مسافر بسوں میں بھی یہ دھندا عروج پر ہے۔ اس طرح سالانہ کروڑوں روپے ان راستوں کے پاسبان کماتے ہیں۔ لین دین کے مسئلے پر کبھی کبھی سمگلروں یعنی بسوں اور ٹرک والوں کے ساتھ ان محافظوں کا تنازعہ بھی ہو جاتا ہے، جس میں مار پیٹ تک نوبت چلی جاتی ہے۔ مگر زیادہ تر مک مکا تک بات رہتی ہے۔ مگر اب سوشل میڈیا پر علیحدگی پسند عناصر کی مضبوط گرفت کی وجہ سے ایسے واقعات کو منفی پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے اور قوم پرستی کو ہوا دے کر اسے قانون نافذ کرنے والوں کے خلاف منفی جذبات ابھارے جاتے ہیں جو نہایت خطرناک عمل ہے۔ گزشتہ دنوں چاغی میں ایک ٹرک والے کو مقامی افراد کے بقول کو رکنے کے اشارے پر نہ رکنے پر مقامی فورس سے گولیاں کا نشانہ بنایا۔ جس سے وہ ہلاک ہوا۔ اس کے بعد علاقے میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال جاری ہے۔ سڑکوں کو ٹائر جلا کر بند کیا جا رہاہے۔ دھرنے ہو رہے ہیں۔ یہ ایک معمولی بات کا بدترین ردعمل ہے۔ ڈرائیور کو مارنے کی بجائے گرفتار کیا جاتا یا گولی چلانی تھی تو ٹانگ پر ماری جاتی اس طرح وہ بچ بھی جاتا اور ایسے ہنگامہ خیز صورتحال سے بچا جا سکتا ہے۔ اس سارے تنازع کا سبب یہ بتایا جا رہا ہے کہ سڑکوں کے نگران ادارے پہلے فی ٹرک 10 ہزار روپے وصول کرتے تھے۔ اب اچانک یہ رقم 20 ہزار روپے کر دی ہے جس پر ٹرانسپورٹر غصے میں ہیں اور کئی جگہ توں تکرار ہوئی ہے۔ مار پیٹ کی نوبت بھی آئی مگر یہ چاغی کا معاملہ خاصہ اُلجھ گیا ہے۔ قوم پرست اور علیحدگی پسند عناصر اسے ہوا دے رہے ہیں۔ منفی جذبات پیدا کر رہے ہیں، نعرے لگ رہے ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت اس بارے میں آگے بڑھے قبائلی عمائدین اور بااثر سیاسی و سماجی رہنمائوں کو درمیان میں لاکر اس مسئلے کا حل نکالے۔ تاکہ فتنے کی یہ آگ ٹھنڈی ہو۔ اس کے علاوہ ایران افغانستان سے منشیات اور اسلحہ کے علاوہ جو عام استعمال کی اشیاء سمگل ہوتی ہیں۔ ان کے حوالے سے کوئی راہ نکالی جائے۔ اسے قابل قبول بنایا جائے یا ٹیکس کے نیٹ میں لایا جائے۔ تاکہ رقم قومی خزانے میں جمع ہو۔ اس طرح خود وصول کرکے اپنی جیبیں بھرنے والوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت اور ٹرانسپورٹ خود راہ نکالیں۔ رہی ایران سے تیل سمگل کرنے کی بات تو اس کے علاوہ اس دشت ویران و بیابان میں اذیت بھری زندگی بسر کرنے والے اس علاقے کے لوگ اور کیا کریں وہ مجبور ہے روزگار کوئی ذریعہ نہیں نہ کاشتکاری ہے نہ کوئی انڈسٹری یہ کیا مٹی کھائیں۔ اس طرف تھوڑی سی رعایت کا خیال رکھا جائے یہ بے چارے اپنی جانوں پر کھیل کر یہ کام کرتے ہیں۔ اسے قانونی راہ دی جائے۔