• news

وزیراعلی پنجاب کا حلف ، صدر نمائندہ مقرر کریں : ہائیکورٹ 

لاہور (اپنے نامہ نگار سے) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدہ پر حمزہ شہباز کا حلف نہ لینے کے خلاف دائر درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے صدر پاکستان کو گورنر کی معذرت کے بعد نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کر دی ہے، چیف جسٹس نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت سے توقع ہے کہ وہ کسی فرد کو حلف کیلئے نامزد کریں گے، پنجاب کے شہری پہلے بہت زیادہ متاثر ہو چکے ہیں،21 روز گزر چکے ہیں اور صوبائی حکومت ہی موجود نہیں ہے، امید ہے صدر مملکت گورنر کے خط کا انتظار نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ گورنر کی غیر موجودگی میں حلف کون لے سکتا ہے، جن حالات میں گورنر کی غیر موجودگی ثابت ہو گی، گورنر کس قانون کے تحت حلف برداری کی تقریب منعقد نہیں کر سکتا؟۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا گورنر حکومت کا ایک اہم نمائندہ ہوتا ہے، یہ ایک اہم معاملہ ہے، عدالت نے کہا گورنر نے حلف نہ لینے کی وجوہات صدر پاکستان کو بھجوا دی ہیں؟۔ مجھے کسی سے غرض نہیں حکومت چلنی چاہیے، کئی میٹنگ کی جس میں وزیر نہ ہونے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا گورنر کی غیر موجودگی میں سپیکر قائم مقام گورنر حلف لے سکتا ہے، عدالت نے کہا گورنر یا تو ملک سے باہر ہو یا حلف نہ لینے کی وجہ بتائے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ گورنر آفس ڈاکخانہ نہیں ہے، گورنر نے تمام انتخابی عمل کو دیکھنا ہوتا ہے، عدالت نے کہا آپ اس معاملے کو اہم سمجھ نہیں رہے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا میں اس معاملے کو اہمیت دے رہا ہوں، عدالت نے کہا اگر آپ اہمیت دیتے تو تیاری کر کے آتے، یہ انتخاب اس عدالت نے کرایا، جس طرح تاریخیں دی گئیں عدالت جانتی ہے، پنجاب تو بند پڑا ہے، وزیر اعلی کوئی حکم دے گا تو کام ہو گا، گورنر ٹی وی کو انٹرویو دے رہے ہیں اس سے زیادہ اہم اور کیا ہے، عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کردی، بعدازاں سماعت دوبارہ شرع ہوئی تو فاضل جج نے استسفار کیا جی ایڈووکیٹ جنرل صاحب، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میری بات ہوگئی ہے، گورنر صاحب حلف نہیں لے رہے، عدالت نے کہا پورا صوبہ کام نہیں کر رہا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا صوبے میں کام ہو رہا ہے، عدالت نے کہا کوئی کابینہ موجود نہیں ہے کیسے کام ہو رہا ہے، گورنر نے حلف نہیں لینا تو تحریری طور پر دے، ورنہ پھر قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا، ہم قانون کے مطابق کسی اور کو حکم دے دیتے ہیں، معذرت جس کو لکھنی ہے اسے لکھیں عدالت کو مخاطب نہ کیا جائے، گورنر سے معذرت لکھوا کر لائیں، کب تک لکھ کر بھجوا دیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا اس بارے معلومات نہیں ہیں، عدالت نے کہا گورنر قانون کی مطابق عمل درآمد نہیں کر رہے، ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ گورنر نے کیا کرنا ہے۔ بتایا جائے صدر کو کب خط لکھ کر حلف نہ لینے کی وجوہات بتائی جائیں گے؟۔ یہ گورنر کا حق ہے ان کی عزت ہماری ذمہ داری ہے، انہیں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اب انہوں نے اس عہدے کی عزت کرانی ہے یا نہیں، گورنر کے مطابق جو ایڈووکیٹ جنرل بتاتے ہیں وہ وہی کر رہے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں بالکل انہیں قانونی مشاورت فراہم کر رہا ہوں، عدالت نے کہا کہ ان کو لکھ کر دیں کہ کیا وجوہات لکھنی ہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یہ میں نے نہیں لکھ کر دینی یہ ان کا اپنا کام ہے، چیف جسٹس نے کہا آپ نے کچھ کہنا ہے کہ میں آرڈر لکھوائوں؟۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا گورنر چوبیس گھنٹوں میں صدر کو وجوہات کا خط لکھ دیں گے۔ بعدازاں عدالت نے صدر پاکستان کو 24 گھنٹے کے اندر حلف برداری کے لئے نمائندہ تعینات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔ دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے حمزہ شہباز کے حلف نہ لینے سے متعلق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے کہا ہے کہ گورنر کو نوٹس ہی نہیں کیا گیا اور نہ ان کی سنا گیا، صدر پاکستان کیس میں فریق نہیں تھے انہیں کیسے کیس میں ہدایات جاری ہو سکتی ہیں، آئین کے تحت صدر اور گورنر کو ہدایات جاری نہیں کی جاسکتیں۔

ای پیپر-دی نیشن