میاں نواز شریف اور مرحوم صحافی کا بیٹا
سن1993میںمیاں محمد نواز شریف کا بطور وزیر اعظم دور حکومت تھااس وقت جب ان کا کوئی غیر ملکی دورہ نہ ہوتاتووہ جمعہ کواپنی رہائش گاہ جاتی عمرہ ضرور جاتے اور وہاں عام لوگوں کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرکے ان کے مسائل سنتے ۔ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور سے ایک سڑک جاتی عمرہ کی طرف جاتی ہے ان دنوں اس راستے میںدونوں اطراف کھیت اور ویرانہ ہوا کرتا تھا۔ایک روز جمعہ کے دن حسب معمول میاں نواز شریف اپنی رہائش گاہ جاتی عمرہ جارہے تھے ،نوازشریف ایک بلیک کار میں سوار تھے جبکہ ان کی کار کے آگے اور پیچھے پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیاں تھیں۔ وزیراعظم کا قافلہ تیزی سے جارہا تھا جب وہ ٹھوکر نیاز بیگ سے جاتی عمرہ کے درمیان پہنچے تو قافلہ کے آگے ٹریفک کلیئرنس دینے والے سارجنٹ نے سڑک پر جارہے موٹر سائیکل سوار کمسن لڑکے کو سائیڈ پر رکنے کا سگنل دیاتاکہ وزیراعظم کا قافلہ گذر جائے۔کمسن لڑکا جو میاں نواز شریف کواپنی درخواست دینے جاتی عمرہ جارہا تھا،اس نے موٹر سائیکل سڑک کنارے سٹینڈ پر لگا کر قافلے کو دیکھنے کے لئے کھڑا ہوگیا۔لڑکے کواس بات کا اندازہ تھا کہ پولیس کی گاڑیوں کے درمیان جانے والی بلیک گاڑیوں میں سے ایک میں وزیر اعظم سوار ہونگے چنانچہ کمسن لڑکے نے اندازے سے وزیراعظم نواز شریف کی گاڑی بھانپتے ہوئے ایک بلیک کار کورکنے کے لئے ہاتھ سے اشارہ کیا،لڑکے نے دوسرے ہاتھ میں درخواست پکڑ رکھی تھی۔اتفاقاََکمسن لڑکے نے جس بلیک کار کو رکنے کا اشارہ کیا تھا اس میں واقعی میاں نواز شریف بیٹھے ہوئے تھے انھوں نے لڑکے کو دیکھ لیا اورسمجھ گئے کہ کوئی سائل ہے انھوں نے ڈرائیور کوفوراََکار روکنے کا کہا،ڈرائیور نے جھٹ سے بریک لگادی اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم کے قافلے میں شامل دیگر تمام گاڑیوں کی بھی بریکیں لگ گئیں ۔قافلہ چونکہ تیزی سے جارہا تھا اس لئے میاں نواز شریف کی گاڑی رُکتے رُکتے تھوڑا آگے نکل گئی۔لڑکے نے گاڑی کو رُکتے دیکھا تو اس کی طرف بھاگا ادھر سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی گاڑیوں سے جمپ لگائے اور لڑکے کے پیچھے بھاگنے لگے۔
یہ بات ناقابل یقین تھی کہ وزیر اعظم نے ویران سڑک پر ایک انجان کمسن لڑکے کے اشارے پر اپنی گاڑی روک دی بہرحال لڑکابھاگتا ہوا کار کے پاس پہنچاتودیکھا میاں نواز شریف کار کا شیشہ نیچے کرکے شفقت بھری نظروں سے اس کو دیکھ رہے ہیں اتنے میںلڑکے کے پیچھے بھاگنے والے سیکیورٹی اہلکار بھی وہاں پہنچ گئے اور لڑکے کووزیراعظم سے دور ہٹانے کے لئے آگے بڑھے تو میاں نواز شریف نے انھیں منع کردیا ۔ لڑکے نے اپنی سانس بحال کرتے ہوئے سلام کیا، میاں نواز شریف نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کمسن لڑکے سے ہاتھ ملایا اورپھر نرم لہجہ میںپوچھا’’بیٹے آپ نے مجھے کیوں روکا ہے ؟‘‘لڑکے نے درخواست پیش کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد مرحوم نامور صحافی شاعر و ادیب تھے ان کی وفات کے بعد بیوہ ماں اور چھوٹے بھائیوں کا واحد سہارہ میںہوںاورمیری تعلیم بھی رک گئی ہے۔‘‘کمسن لڑکے کی رودادسن کر نواز شریف آبدیدہ ہوگئے،انھوں نے جیب میں سے پین نکالا اوراسی وقت لڑکے کی دی ہوئی درخواست پر دو بھائیوں کو سرکاری نوکری،ییلو کیب ٹیکسی ،مالی امداد اوردس مرلہ پلاٹ کے آرڈر کردیئے اور پھر وہ درخواست اپنے پرسنل سیکرٹری جمشید صدیقی کو دے کر ہدایت کہ کہ فوری عمل کروائیں۔نواز شریف نے کمسن لڑکے سے مخاطب ہوکر کہا کہ’’ بیٹا آپ کے والد مرحوم کی صحافتی و ادبی خدمات سے میں بخوبی واقف ہوں اس لئے میں ان کی فیملی کو ان کا حق دے رہا ہوں۔‘‘اگلے روز اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ اس واقعہ کی خبریں شائع ہوگئیں۔اس سے پہلے کہ میاں نواز شریف کے آرڈرز پر عملدرآمد ہوتا بدقسمتی سے ان کی حکومت چلی گئی اورکمسن لڑکے اور اس کی فیملی کو کچھ بھی نہ مل سکا۔یہاںیہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ کمسن لڑکا میں تھا اور میرے والد مرحوم جناب غلام محی الدین نظر صاحب کی وفات پر میاں نواز شریف نے خصوصی مراعات کا اعلان کیا تھا اگرچہ ہمیں آج تک کچھ نہیں ملا لیکن مجھے میاں نواز شریف کی رحمدلی ہمیشہ یاد رہے گی کہ کس طرح ایک وزیر اعظم نے ویران جگہ پر اپنی گاڑی قافلہ سمیت رکوادی اورجان کی پروا نہ کرتے ہوئے میری بات تسلی سے سنی اورموقع پر احکامات جاری کئے۔
٭…٭…٭