اے کاش کہیں ایسا ہو جائے!!!!!!
خبریں سن رہا ہوں کہ حکومت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان یا پھر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو گرفتار بھی کر سکتی ہے۔ ان خبروں کے بعد ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ پاکستان میں سیاسی گرفتاریاں کوئی نئی بات نہیں کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت کر رہی ہو ہر دور میں مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کو قابو کرنے یا دبانے کے لیے کمزور مقدمات کا سہارا لیا جاتا ہے، ریاستی اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے، حکمران اپنے مخالفین کو جکڑنے کے لیے طاقت اور اختیار کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے سب اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا لیکن طاقتور ہونے کے بعد سب اپنے بیانات، وعدوں اور نعروں کو بھول جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی ایک مرتبہ پھر سیاسی مخالفین کو "اندر" کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر وزیراعظم میاں شہباز شریف کے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو انہیں سیاسی گرفتاریوں کے لیے اکسا رہے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ مشورے دے رہے کہ حکومت کو ایسے کاموں سے دور رہتے ہوئے عوامی مسائل حل کرنے، معیشت سنبھالنے اور بین الاقوامی سطح پر ساکھ بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ میاں شہباز شریف ایک سمجھدار اور تجربہ کار سیاستدان ہیں ان سے ایسی غلطیوں کی توقع نہیں جا سکتی۔ وہ توقعات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان کی شہرت ایک اچھے منتظم کی ہے۔ صوبے کی سطح پر کام کرتے ہوئے وہ اچھے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں شہباز شریف لوگوں کو بہت توقعات ہیں۔ عوام کہ بدقسمتی ہے کہ وہ ہر دور میں ہر آنے والے حکمران سے امیدیں لگاتے ہیں اور پھر مایوس ہوتے ہیں، سیاست دان ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں مصروف رہتے ہیں اس لڑائی میں عوامی مسائل کو نشانہ بنانے کے دعوے کرنے والوں کا اس حوالے سے کوئی نشانہ درست نہیں لگتا۔ حکومت بدل جاتی ہے اور نیا آنے والا پھر نئے سرے سے سبز باغ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت بھی یہی کچھ کرے گی۔ کیونکہ ان لوگوں کے پاس یہ عذر تو ہرگز نہیں ہے کہ انہیں سیکھنے میں کچھ وقت لگا یا نہیں مسائل کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہو سکا یا پھر حکومت میں بغیر تیاری کے آئے ہیں۔ یہ سب دہائیوں سے مختلف حکومتوں کا حصہ رہے ہیں، سب مل کر لگ بھگ پونے چار سال تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں اس لیے ان کے پاس تیاری کے لیے وقت لینے کا عذر بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسائل سب کے سامنے تھے۔ اب گرفتاریوں کے پیچھے چھپنے یا بیانات الجھانے اور باتیں کرنے کے بجائے مسائل کے حل کی طرف بڑھیں۔
جہاں تک سابق وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے انہیں وزارتِ عظمیٰ چھن جانے کا دکھ بھی ہے۔ وہ اپنے بیانیے کے ساتھ ووٹرز کے جوش و جذبے میں اضافے کے لیے میدان میں ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن جو بیانیہ لے کر وہ عوام کے پاس گئے ہیں مسئلہ کسی بھی صورت عوامی اجتماعات میں زیر بحث نہیں آنا چاہیے تھا۔ یہ مسئلہ صرف متعلقہ فورمز پر ہی زیر بحث آنا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کو بھی نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے یا جلسوں میں اس مسئلے کو نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ ہمارے سیاستدان دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں، کچھ ہوا ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن دنیا کے سامنے تماشا لگا ہوا ہے۔ ان حالات میں کوئی ملک کیسے ہم پر اعتبار کرے گا لوگ بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔
حکومتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن کون ہے جس نے قومی سلامتی کو مقدم رکھا ہے، کون ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے کام نہیں کیے، کون ہے جس نے حکومت ختم ہونے کے بعد اداروں کو نشانہ نہیں بنایا۔ ان دنوں بھی کردار بدلے ہیں، الفاظ بدلے ہیں، بیانیہ تو وہی ہے۔ کسی کا دامن صاف نہیں، حکومت ختم ہونے کے بعد سب ایک ہی راستے پر چلتے ہیں۔
درست ہے کہ پی ٹی آئی نے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا لیکن کیا موجودہ حکومت جو کہ تجربہ کار سیاستدانوں پر مشتمل ہے یہ بھی وہی کام کریں گے جو پی ٹی آئی ہے ناتجربہ کار اور غیر سنجیدہ وزراء نے کیے، اگر یہ سلسلہ اب بھی جاری رہا تو درگذر اور تحمل مزاجی کا سفر کہاں سے شروع ہو گا۔ کون ہے جو سیاسی مخالفین کی غلطیوں اور بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے طرز سیاست کو فروغ دے گا۔ کیا میاں شہباز شریف ہر وقت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے بیانات کا جواب دیتے رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف سیاسی بیان بازی کے بجائے اپنا وقت ملکی مسائل حل کرنے اور عوام کو سہولت دینے میں صرف کریں گے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ مہنگائی کم کرنے، تیل،پیٹرول، ڈیزل، بجلی، ادویات اور اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے آئے ہیں۔ وہ معیشت کو سنبھالیں، سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ پر دماغ خرچ کرنے اور وقت ضائع کرنے کے بجائے معیشت کو سنبھالیں، مخالفین کو بند کرنے سے نہیں بلکہ مہنگائی پر قابو پانے سے ہی مخالفین کو زیر کیا جا سکتا ہے۔ اگر شہباز شریف ایسے کریں اور عمران خان بھی لوگوں کو تقسیم کرنے اور نفرت کے جذبات ابھارنے کے بجائے حقیقی سیاسی جدوجہد کریں، الزامات کے بجائے حقیقت کو سامنے رکھیں، اپنے حمائتیوں کو تحمل مزاجی کا درس دیں تو ملک میں بہتر سیاسی ماحول پیدا ہو سکتا ہے کاش ایسا ہو جائے!!!!!