پی ٹی آئی منحرف ارکان کو نا اہل کرنے کا ریفرنس خارج
اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ) الیکشن کمشن نے پاکستان تحریک انصاف کے 20 منحرف ارکان قومی اسمبلی کے خلاف دائر ریفرنس پر اتفاق رائے سے فیصلہ دیتے ہوئے خارج کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمشن میں پی ٹی آئی کے 20منحر ف ارکان قومی اسمبلی کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ الیکشن کمشن میں تحریک انصاف کی جانب سے گز شتہ ماہ منحرف اراکین سے متعلق درخواست دائر کی تھی۔ پی ٹی آئی نے 20اراکین قومی اسمبلی کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63اے کے تحت نا اہلی کیلئے ڈیکلریشن اور ریفرنس دائر کیے تھے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ منحرف اراکین کی وجہ سے اتحادیوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے دائر ریفرنس میں اراکین قومی اسمبلی راجہ ریاض، نور عالم خان، فرخ الطاف، احمد حسین ڈیہڑ، رانا قاسم نون، غفار وٹو، سمیع الحسن گیلانی، مبین احمد، باسط بخاری، عامر گوپانگ، اجمل فاروق کھوسہ، ریاض مزاری، جویریہ ظفر آہیر، وجیہہ قمر، نزہت پٹھان، رمیش کمار، عامر لیاقت حسین، عاصم نذیر، نواب شیر وسیر، افضل ڈھانڈلہ شامل تھے۔ الیکشن کمشن میں ریفرنس پر چار سماعتیں ہوئیں جبکہ پہلی سماعت 28 اپریل کو ہوئی تھی۔ گزشتہ روز الیکشن کمشن میں ہونے والی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے منحرف رکن نور عالم خان کے وکیل گوہر خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی شوکاز نوٹس کے جواب میں کہا تھا نہ پی ٹی آئی چھوڑی ہے اور نہ ہی پارلیمانی پارٹی، بعد میں پارٹی نے کہا کہ عدم اعتماد پر ووٹ نہیں دینا جو ثابت کرتا ہے کہ پارٹی نے تسلیم کیا نور عالم ان کا رکن ہے۔ وکیل گوہر خان نے مزید کہا کہ نور عالم نے تین اپریل کو اجلاس میں شرکت کی، نور عالم نے کسی اور پارلیمانی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ ممبر الیکشن کمشن نے پوچھا کہ کیا نور عالم خان نے تحریک عدم اعتماد کے دن ووٹ کاسٹ کیا؟۔ جس پر ان کے وکیل نے کہا کہ ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ نور عالم خان کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل پر آرٹیکل 63 ون (اے) کا اطلاق نہیں ہوتا، نور عالم خان ابھی بھی پی ٹی آئی کے رکن ہیں، سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ الیکشن کمشن کا فل کورٹ نااہلی ریفرنسز کا فیصلہ سنا سکتا ہے۔ ممبر کمشن ناصر درانی نے پوچھا کہ کیسے نتیجہ نکالا کہ الیکشن کمشن کا 5 رکنی بینچ ہی فیصلہ سنا سکتا ہے؟۔ جس پر گوہر خان نے کہا کہ سپریم کورٹ اس پر فیصلہ دے چکی ہے۔ الیکشن کمشن کے ممبران نے پی ٹی آئی کے 20 منحرف ارکان کے خلاف دائر ریفرنس پر فیصلہ اتفاق رائے سے دیتے ہوئے خارج کر دیا۔ قبل ازیں الیکشن کمشن کی جانب سے پی ٹی آئی کی مزید ریکارڈ دینے کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ منحرف اراکین نے پی ٹی آئی کے مزید ریکاڈ دینے کی مخالفت کی تھی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی وکیل فیصل چودھری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشن کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کروں گا۔ الیکشن کمشن فیصلے کی کاپی فراہم کرے‘ یہ کیس ہماری نظر میں متنازعہ ہو چکا ہے۔ الیکشن کمشن کی طرف سے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان قومی اسمبلی پر آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جس پر منحرف اراکین اسمبلی ڈی سیٹ ہونے سے بچ گئے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور ممبر سندھ نثار درانی کے خلاف ریفرنس لانے کا فیصلہ کر لیا۔ میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ملک کا نظام متوازن کرنے کا کام اداروں کا ہوتا ہے اور بد قسمتی سے پاکستان میں سیاسی بحران چل رہا ہے جس کی وجہ الیکشن کمشن ہے، عمران خان اور پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن پر اعتماد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن کے خلاف قانونی کارروائی کرنے جا رہے ہیں، چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس لانے کا فیصلہ کر رہے ہیں اور فیصل واوڈا ریفرنس دائر کریں گے۔ اوور سیز پاکستانیوں سے ووٹ چھینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمشن کے مبر سندھ نثار درانی کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا، ریفرنس آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا گیا۔ ریفرنس کے متن کے مطابق نثار درانی آرٹیکل 215-16 کے تحت مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں، آرٹیکل 216 کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کسی اور ادارے کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ نثار درانی سندھ حکومت کے لاء کالج حیدر آباد کے پرنسپل ہیں، نثار درانی کو 31 دسمبر 2021 کو لاء کالج کے پرنسپل کے عہدے میں تین سال توسیع کی گئی جبکہ ریفرنس کے ساتھ پرنسپل کے عہدے پر تین سالہ توسیع کا نوٹیفکیشن بھی لف کیا گیا۔ نثار درانی نے لاء کالج حیدر آباد کے پرنسپل کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا اور آئین کے مطابق سرکاری عہدے پر فائز شخص کوئی دوسرا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔ ریفرنس کے مطابق نثار درانی نے جان بوجھ کر آرٹیکل 214-15 کی خلاف ورزی کی ہے اور ممبر سندھ جوڈیشل کوڈ آف کنڈکٹ کے بھی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ فیصل واوڈا نے سپریم جوڈیشل کونسل سے نثار درانی کو عہدے سے ہٹانے کی استدعا بھی کی۔اسلام آباد سے اپنے سٹاف رپورٹر سے کے مطابق تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے رد عمل میں کہا کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ متوقع تھا۔ یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ کیا فیصلہ آ رہا ہے۔ الیکشن کمشن کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ فواد چوہدری نے کہا اس طرح کی لاقانونیت کے خلاف تحریک انصاف میدان میں آئے گی اور یہ جنگ عوام کے ساتھ جیت کر دکھائیں گے۔ رہنما پی ٹی آئی شفقت محمود نے کہا ہے کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ جمہوریت پر شب خون مارنے سے کم نہیں‘ فیصلے سے آئین و دستور کی روح پر شدید ضرب لگی‘ الیکشن کمشن ہارس ٹریڈنگ کا تحفظ کرتا دکھائی دے رہا ہے‘ قوم ایسے فیصلے قبول نہیں کرے گی۔ رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے بھی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اپنی ٹویٹ میں نور عالم خان کا کہنا تھا اللہ اکبر۔ مزید برآں مرکزی سیکرٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف اسد عمر نے الیکشن کمشن کے فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ نہایت جانبدارانہ اور متعصبانہ ہے۔ سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ وائس چیئرمین پاکستان تحریک انصاف شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ فیصلہ مایوس کن ہے۔ تحریک انصاف اس فیصلے پر بھرپور قانونی چارہ جوئی کا ارادہ رکھتی ہے۔مزید برآں سابق وزیر اطلاعات فوادچودھری نے کہا ہے کہ اکانومی کا بحران بہت بڑا ہو گیا ہے۔ زرداری کو خود نہیں پتا الیکشن اصلاحات کیا ہونی چاہئیں۔ آصف زرداری کی جماعت ایک علاقائی پارٹی ہے۔ شہباز شریف کو دورہ سعودی عرب اور یو اے ای میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔