سمندر پاکستانیوںکو سیاست سے دور رکھیں
ملک میں قومی اداروںکی کبھی اتنی بدنامی یا جگ ہنسائی نہیں ہوئی جتنی پی ٹی آئی حکومت کے سابقہ ہونے کے بعد ہوئی، کچھ اداروںکو ماضی قریب میں الطاف حسین نے کھلم کھلا ، سابقہ وزیر اعظم نواز شریف نے اسی قبیل کے ڈھکے چھپے بیانات کو اپنے بیانئے کا نام دیا ، جب پی ٹی آئی کے سربراہ نے سیاست میں قدم رکھنا شروع کیا تھا اسوقت اسی اداروںکے دشمن بیانات ، انٹرویوز کا سہارا لیا تھا ، غرض یہ کہ سیاست دان نہ جانے کیوںاپنی ناکامیوں کا ذمہ ملک کے اعلی اداروں کے سر تھوپتے ہیں ماضی میں ضرور کچھ جرنلز اس قسم کے آئے جنہوںنے سیاست دانوں کا سہارا لے کر اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کیلئے کبھی ایم کیو ایم تعمیر کی ، کبھی راتوںرات مسلم لیگ ( ج) کی تشکیل ،اور اب غلط سیاسی تجزیہ کے بعد چوہدری شجاعت اورچوہدری ظہور الہی کی عزت کو دائو پر لگاتے ہوئے اور پنجاب میں سیاسی ہوس کا شکار ہونے والی مسلم لیگ نے بھی ملک میں کہیں نہ کہیں حکومت میں رہنے کیلئے آئین پاکستان کی دھجیاں بکھیرنے میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا ۔ اپریل کے اوائل میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ملک کی دیگر سیاسی جماعتوںنے متحد ہوکر آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ملک کے معاشی حالات کا سہارا لیتے ہوئے چلتا کیا۔ اس تحریک اعتماد کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت کے وزراء ، وزیر اعظم نے جو بیانات دئے جس میں تحریک کی ناکامی کا ذکر ،کبھی تحریک لانے کی دعا تھی۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ تحریک لاکر پی ٹی آئی حکومت کو چلتا کرکے پی ڈی ایم نے ٹھیک کیا یا غلط، حکومت جانے کے بعد یا تحریک کے دوران پی ٹی آئی کا بیانیہ کہ غیرملکی یا امریکہ نے سازش کی۔ یہ چورن زیادہ نہ بک سکا چونکہ اسکے وزراء دوسری جانب یہ بھی کہتے رہے کہ اگر ادارے ہمارے ساتھ ہوتے تو حکومت نہ جاتی اب صورتحال اس نہج آ پہنچ چکی ہے پی ٹی آئی نے جو نفرتیں عوام میں پیدا کردی ہیں انکا تدارک کیسے ہو ؟ جو بیانیہ اسوقت نفرتو ںکے دور میں اعلی عدلیہ اور عسکری اداروںکے خلاف پی ٹی آئی لیکر چلی ہے نہ جانے پی ٹی آئی کے اکابرین کو اسکا اندازہ کیوں نہیں کہ اس بیانئے سے بیرون ملک پاکستان کی کیا ’’عزت افزائی ‘‘ہورہی ہے ،آئی ایس پی آر کی جانب سے بارہا سیاست دانوں کو یہ کہنے کے باوجود کہ ’’ہمیںسیاست میں نہ گھسیٹیں‘‘ پی ٹی آئی کی ہر تقریر میںعوام کے اندر نفرتوںکا بیج بویا جارہا ہے ، جبکہ پی ٹی آئی کی یہ بھی تمنا ہے وہ پھر حکومت کرے گی، اگر ہماری ہر سیاسی جماعت یہ وطیرہ اپنا لے کہ جب بھی وہ حکومت سے علیحدہ ہو اسطرح کے نفرت انگیز بیانات لیکر سڑکوں پر نکل پڑے تو کیا ہوگا۔ پی ٹی آئی کے بیانات میں اشتعال انگیزی کیساتھ ساتھ ہتک آمیزی بھی شامل ہے۔ جب حکومت برقرار تھی تو ایک صفحے پر ہونے کے بیانات اور جب ایک جمہوری عمل کے ذریعے حکومت ختم ہوگئی تو وہی برے ہوگئے۔ یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کی کوئی سیاسی حیثیت بھی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں نے ایک وقت میں فوج کے خودساختہ ترجمان بننے کی بھی کوشش کی۔ کبھی عمران خان اور دفاعی ادارے کے درمیان ’’صلح‘‘ کرانے کے دعوے کئے اور وہی لوگ اب خونیں لانگ مارچ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ کونسی جمہوریت ہے کہ جس کا جب بھی جی چاہے کھڑے ہوکر کبھی معزز عدلیہ کو اور کبھی دفاعی اداروں کی اعلیٰ قیادت کوڈکٹیٹ کرنا شروع کردے یہ 22 کروڑ باشعور اور محب وطن لوگوں کا ملک ہے وہ اس ملک کو کبھی بھی بنانا ریپبلک نہیں بننے دیں گے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ ایک ایسی ’’جمہوریت‘‘ ہے کہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے کچھ بھی کرلیں، ایسے لوگوں کو کھلی چھٹی ہے کیونکہ جمہوریت ہے اور یہ لوگ سیاستدان ہیں کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یا تو وہ برسراقتدار ہوں یا پھر جو بھی تباہی ہوتی ہے ہو جائے ان کو اس سے کوئی سروکار ہے نہ اس کی کوئی فکر۔ بدقسمتی سے اس ناخوشگوار اور ناپسندیدہ عمل میں بعض میڈیا ہائوسز، اینکرز اور کالم نگار و تجزیہ کار بھی شامل ہیں،پی ٹی آئی سربراہ کے حالیہ بیانات جو وہ مختلف جلسوں میں دے رہے ہیں۔ سب سے اہم غیر پسندیدہ بیانات ملک سے باہر پاکستان کیلئے زرمبادلہ کمانے کی مشینوں کے متعلق ہیں۔ کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ پورا نہ کرسکے وہ پاکستانیوںسے کہ وہ جس ملک میں بھی وہاں اس بقول انکے ’ سازش ‘‘ کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کے خلاف مظاہرے کریں، یہ ایک بھیانک قسم کا بیان ہے ، جس کے ذریعے کئی ممالک میں انکے پیروکار واپس پاکستان بھیج دئے جائینگے ، اسلئے خان سے اور سب یاست دانوں سے درخواست ہے کہ بیرون ملک اپنے پیروکاروں کو سیاست سے دور رہ کر صر ف زرمبادلہ کمانے کی مشین ہی رہنے دیں جو وہ گزشتہ ستر سالوں سے ہیں اور منفی سیاست ، مظاہرہ بازی تو بیرون ملک ہرگز نہ کریں۔