سری لنکا کے حالات ایک سبق!!!!!
کافی دنوں سے سری لنکا کے حالات کی خبریں سن رہا ہوں یقیناً سری لنکا کو مشکل ترین حالات کا سامنا ہے۔ وہاں کے حالات دیکھ کر انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ایک مہذب، نرم مزاج، تعلیم یافتہ قوم کو ایسے بدترین حالات کا سامنا ہے کہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سری لنکا کے لوگ کئی حوالوں سے بہت منفرد ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ وہاں کئی شہروں میں پاکستانی نظر آتے ہیں۔ کئی مساجد میں پاکستان سے مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ سری لنکا کی پاکستان سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو ہزار نو میں ان کے کرکٹرز پر لاہور میں دہشت گردوں نے حملہ کیا اس کے بعد پاکستان صرف کرکٹ ہی نہیں دیگر کھیلوں کے لیے بھی نو گو ایریا بنا رہا۔ دہشت گردی کے اس واقعے سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ سری لنکن کرکٹرز نے اس خطرناک حملے کے باوجود پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی میں اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے پاکستان کے حقیقی دوست ہونے کا حق ادا کیا۔ سری لنکنز کی پاکستان سے محبت کو دیکھتا ہوں اور آج اپنے اس دوست ملک کے اندرونی حالات اور ناکامی کو دیکھتا ہوں تو بہت بیچین ہو جاتا ہوں۔ کمزور سری لنکا سے پاکستان خطے میں ایک اچھے دوست سے محروم ہوتا ہے۔ ایک ایسا دوست ملک جو ہر حال میں پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار رہتا ہے اس کا مسائل سے دوچار ہونا پاکستان کے لیے بھی پریشان کن ہے۔ گوکہ پاکستان خود اندرونی طور پر شدید سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود
سری لنکا کے حالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سری لنکا کے زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی کے باعث معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ مالیاتی بحران کے سبب ایندھن، خوراک، اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ گذشتہ برس سری لنکا کی سرکاری پیٹرولیم کمپنی کو تراسی بلین روپے کا نقصان ہوا حالات اتنے خراب ہوئے کہ پیٹرولیم مصنوعات خریدنے کے لیے پیسے ہی نہ بچے۔ پہلے تیل امپورٹ کرنے کے لیے ڈالرز ختم ہوئے اور پھر جب حالات مزید خراب ہوئے تو ڈالرز خریدنے کے لیے بھی پیسے ختم ہو گئے۔ یہ حالات نہایت تکلیف دہ ہیں۔ ان دنوں میں جہاں کہیں پیٹرولیم مصنوعات دستیاب وہاں لمبی لمبی قطاریں صبر کا امتحان لیتی نظر آ رہی ہیں۔ انہی دنوں میں ایک نہایت تکلیف دہ خبر بھی سننے کو ملی جب دو افراد پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کے لہے پائن میں لگے تھے اور وہیں زندگی کی بازی ہار گئے۔ ایک ستر سالہ ڈرائیور تھا جسے ذیابیطس اور دل کا عارضہ لاحق تھا جبکہ چقر گھنٹے تک لائن میں لگے سانسیں بند ہونے والے دوسرے شخص کی عمر بہتر برس تھی۔
سری لنکا کو اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی دور سے گذر رہا ہے حکومت کو تیل منگوانے کے لیے غیر ملکی کرنسی کے بحران کا سامنا ہے۔ شہری پٹرول اور ایندھن کے لیے گھنٹوں قطار میں لگنے پر مجبور ہیں۔ تیل کی قلت کے باعث بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ شدید مالیاتی بحران کی وجہ سے کاغذ کی درآمد کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں تعلیم کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کاغذ کی امپورٹ بند ہونے کی وجہ سے تعلیمی اداروں امتحانات کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
وہاں عوام سڑکوں پر نکلی، مظاہرے ہو رہے ہیں، توڑ پھوڑ ہے، ہنگامے ہو رہے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسی صورت حال ہو اسے دیکھ کر خوش نہیں ہوا جا سکتا کیونکہ ترقی پذیر ممالک کے وسائل محدود ہوتے ہیں اور اگر وہاں حکمران بہتر منصوبہ بندی نہ کریں اچھی حکمت عملی اختیار نہ کریں، وسائل پیدا کرنے اور بتدریج اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش نہ کریں تو یقینی طور پر ایک دن ایسا آتا ہے جب کچھ باقی نہیں بچتا۔ مظاہروں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے سابق وزیراعظم مہندا راجا پکسے کے آبائی گھر کو آگ لگا دی،سیکیورٹی اہلکار راجہ پکسے کو اہلخانہ سمیت بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ سری لنکن فوج نے سابق وزیراعظم کو حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔ ان پرتشدد مظاہروں میں مشتعل ہجوم نے سابق وزیراعظم کے گھر پر درجن بھر پیٹرول بم بھی پھینکے ہیں۔ بدترین مالی بحران نے سری لنکن شہریوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور یہ صورتحال بہت سے ممالک کے لیے ایک سبق چھوڑ رہی ہے۔
چوبیس مارچ کو پاکستان سٹاک ایکسچینج 100 انذکس 43523پوائنٹس تھا۔11مئء کو 42863.15پوائنٹس پر نظر آتا ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 100 انڈکس میں 660پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یقیناً اس صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مارچ 2022 میں ملک میں مہنگائی کی سالانہ موازنے کی بنیاد پر عمومی شرح 12.7فیصد تھی۔ اپریل 2022 میں سالانہ موازنے کی بنیاد پر مہنگائی کی عمومی شرح 13.4فیصد نظر آتی ہے۔ یعنی حکومت کی تبدیلی سے مہنگائی میں 0.7فیصد اضافہ ہوا ہے۔31مارچ2022 کو زر مبادلہ کے ذخائر کا مجموعی حجم 17ارب 42کروڑ64لاکھ ڈالر تھا۔ 6مئی 2022 کو زر مبادلہ کے ذخائر کا مجموعی حجم¹6ارب 55کروڑ32 لاکھ ڈالر ہے۔ یعنی حکومت کی تبدیلی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں 87کروڑ32لاکھ ڈالر کی کمی ہو چکی ہے۔
میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھی حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت کو سہارا دینا اور عوامی مسائل حل کرنا ہے۔ ہمیں مشکل حالات سے نکلنے کے لیے بیان بازی پر وات ضائع کرنے کے بجائے بدترین حالات سے بچنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کسی کی بھی کامیابی یا ناکامی اردگرد والوں کے لیے ایک سبق ہوا کرتی ہے۔ اگر ہم سبق سیکھنا چاہیں تو ہمارے اردگرد کئی مثالیں موجود ہیں۔