ترقی کرتی معیشت اچانک دیوالیہ کیسے ہوگئی
سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
پاکستان میں نئی حکومت کو قائم ہوئے تقریباً ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا۔ عوام اور ماہرین اس آس میں تھے کہ نئی حکومت آئے گی تو ملک کی معاشی صورتحال کو درست کرے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی چند احکامات بھی جاری کئے جس میں تنخواہوں اور پینشن میں 10 فیصد اضافہ اور تمام دفاتر میں ہفتہ کی چھٹی ختم کردی گئی تھی۔ لیکن چند ہی دن میں تنخواہوں میں اضافہ کے فیصلے کو بجٹ سے مشروط کردیا گیا جبکہ ہفتہ کی چھٹی ختم کرنے پر بینک ملازمین کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا، اور حکومت کو عید بعد اس فیصلے کو بھی واپس لینا پڑا اور ہفتہ کی چھٹی بحال کردی گئی۔ دوسری جانب معیشت میں اہم ستون مرکزی بینک کے گورنر بھی عہدے کی مدت مکمل ہونے پر سبکدوش ہوگئے۔ حکومت کی جانب سے ان کی ملازمت میں توسیع کا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا کیونکہ یہ بات واضح تھی کہ حکومت ڈاکٹر رضا باقر کو مزید توسیع دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ چنانچہ ڈاکٹر رضا باقر نے ٹوئٹ کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار کیا اور عہدہ چھوڑ دیا۔ ان کی جگہ ڈپٹی گورنر مرتضی سید نے عہدہ سنبھال لیا، جن کے بارے میں بھی یہی رائے ہے کہ وہ آئی ایم ایف میں ملازمت کرچکے ہیں اور آئی ایم ایف کی ایما پر پاکستان کے مرکزی بینک کو چلائیں گے۔ ڈاکٹر رضا باقر کے سبکدوش ہونے کے بعد سے حکومت نے نئے گورنر کے نام کا اعلان نہیں کیا۔ جو کہ حکومت کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال دیکھی جائے تو پاکستان پہلے سے زیادہ مشکل حالات سے گزر رہا ہے، ڈالر کی قیمت ایک بار پھر آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور 190 روپے کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تشویشناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔ ایک ماہ کے دوران سرکاری ذخائر میں 6 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ حکومت کے پاس اب صرف 10 ارب ڈالر کے ذخائر بچے ہیں جس میں سے 3 ارب ڈالر سعودی عرب کی جانب سے رکھوائے گئے تھے، یعنی حکومت کے پاس صرف 7 ارب ڈالر کے ذخائر ہی قابل استعمال ہیں جو صرف ایک مہینے کے امپورٹ بل کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو اس کی شرط یہ ہے کہ اس ملک کے پاس تین ماہ کے امپورٹ بل کی ادائیگی کی رقم ہو۔ جبکہ اس کا موازنہ پاکستان سے کیا جائے تو بدقسمتی سے پاکستان کے پاس تین مہینے تو کیا ایک ماہ کا امپورٹ بل ادا کرنے کے ذخائر ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم دیوالیہ ہونے جارہے ہیں۔ حکومت اس پر کیا اقدامات کر رہی ہے اب تک واضع نہیں ہوا ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کامیاب نہیں رہے، دونوں ممالک سے کوئی خاطر خواہ امداد کا اعلان نہیں کیا گیا، نہ ہی کم قیمت پر پیٹرول ملا۔ اب حکومت ایسے مشکل وقت سے گزر رہی ہے جس میں عوام کی توقعات پر پورا اترنا ناممکن ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا، یا پھر مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے مزاکرات ہونے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بھی صرف ایک ارب ڈالر کی امداد ملے گی، ماہرین کے مطابق یہ امداد دینے کیلئے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں حکومت کے پاس کیا آپشنز بچتے ہیں۔ ماہرین اب یہ سوال کرتے ہیں کہ حکومت جو دعوی کرتی تھی کہ تجربے کی بنیاد پر ملک کو ٹھیک کریں گے، تو انہوں نے اپنے تجربے سے کیا فائدہ اٹھایا۔ ہاں حکومت کے چند اقدامات ضرور نظر آرہے ہیں جس میں اس نے اپنے اوپر قائم مقدمات کی پیروی روک دی گئی، جو افسران ان مقدمات پر تفتیش کر رہے تھے ان کے تبادلے کر دئے گئے۔ 100 سے زائد افراد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا، جس میں سیاست دانوں کے علاوہ پیشہ ور مجرمان بھی تھے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان اقدامات سے ملک ترقی کرلے گا، کیا معیشت جو 5 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی اچانک دیوالیہ کیسے ہوگئی۔ پاکستان کے پاس ان تمام مشکلات سے نکلنے کیلئے کیا معاشی پلان ہے۔ ان سوالات کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔