پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو وعدے کئے وہ پورے کرنا مشکل ہیں، پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے خاتمہ کا وعدہ عمران خان کی حکومت نے کیا تھا، عمران حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ایل این جی درآمد نہیں کی گئی جس کی وجہ سے بجلی بنانے کے کارخانے بند ہو گئے، موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں گے، موجودہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، جب ہم حکومت چھوڑ کر گئے تو گندم اور چینی برآمد کرتے تھے لیکن گذشتہ دور حکومت میں گندم اور چینی کی سمگلنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں قومی ضروریات کی تکمیل کیلئے درآمدات کرنا پڑیں، پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود رواں مالی سال کے دوران تقریباً 8 ارب ڈالر کی زرعی مصنوعات درآمد کرے گا جن میں 4 ارب ڈالر کا خوردنی تیل بھی شامل ہے۔ عمران خان کی نااہلی کی وجہ سے معیشت خسارہ میں ہے، عمران حان کو اپنے سوا تمام غدار نظر آتے ہیں، عمران حکومت نے قیام پاکستان سے لے کر ماضی کی تمام حکومتوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ریکارڈ قرضے لئے، کرونا کی عالمی وبا کے دوران غیر ملکی امداد اور قرضوں کی واپسی میں رعایت کے باوجود عوام کو کوئی رعایت نہ دی گئی، ہمارے گذشتہ دور حکومت میں گندم، گنا اور کپاس کی ریکارڈ پیداوار ہوئی لیکن گذشتہ دور حکومت میں پیداوار میں کمی کے باعث گندم، چینی اور کپاس درآمد کرنا پڑی، عمران خان کی حکومت کے دوران برآمدات میں اضافہ کا بڑا شور کیا گیا لیکن حقیقت میں برآمدات میں 25 فیصد جبکہ درآمدات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، ہم مہنگی ایل این جی خرید کر کھاد تیار کرنے والی صنعت کو انتہائی سستی فراہم کرتے ہیں تاکہ کاشتکار کو سستی کھاد دستیاب ہو سکے لیکن عمران خان کی حکومت کے دوران کھاد بھی بیرون ملک سمگل کروا دی گئی۔ اتوار کو یہاں پی آئی ڈی میں قومی معیشت کے حوالہ سے اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد قومی معیشت کا نقشہ پیش کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب چار سال قبل ہم حکومت چھوڑ کر گئے تو ملک گندم برآمد کر رہا تھا لیکن گذشتہ ہفتے ای سی سی نے 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی منظوری دی ہے، اسی طرح ہم چینی بھی برآمد کر رہے تھے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پہلے سال 48 روپے کلو کی قیمت پر چینی برآمد کی اور پھر 96 اور 98 روپے فی کلو کی قیمت پر درآمد کرنا پڑی، اسی طرح 1983-84 کے بعد ملک میں کپاس کی سب سے کم 5.3 ملین بیلز کی پیداوار ہوئی تاہم رواں سال پیداوار 7 ملین بیلز ہوئی ہے جب ہماری حکومت ختم ہوئی تھی تو ایک کروڑ بیلز کی پیداوار ہو ئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی ہو تو سوچنا پڑے گا کہ کیا جعلی بیج اور زرعی ادویات بیچی گئیں یا نااہل افراد کو تعینات کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے ایک لاکھ 40 ہزار ٹن یوریا سمگل کرا دی اور ہمارا کاشتکار کاشت کیلئے دربدر ٹھوکریں کھاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ کھاد کی سمگلنگ ٹرکوں کے ذریعہ ہوئی ہے جس میں بہت سے افراد ملوث ہیں اور یہ سمگنگ حکومت پنجاب کے بغیر مملکن نہ تھی۔ اسی طرح گندم بھی سمگل ہوئی اور عمران خان کے دور حکومت میں ایف آئی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ایسی چکیوں کو بھی گندم فراہم کی گئی جن کے بجلی کے بل صفر تھے، انہوں نے یہ گندم افغانستان اور دیگر ممالک کو سمگل کرا دی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یوریا کھاد کی قیمت 2630 روپے تھی جس پر 3 تا 4 ہزار روپے گیس کی سبسڈی کی مد میں دیئے جاتے ہیں تاکہ کسان کو سستی کھاد ملے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تین ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ایل این جی خرید کر کھاد کی صنعت کو 260 تا 280 روپے پر فراہم کرتے ہیں تاکہ کاشتکار کو سہولت ہو لیکن گذشتہ حکومت نے یہ کھاد بھی سمگل کروا دی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر زرعی شعبہ ٹھیک نہیں ہوا تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، ایک زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان 8 ارب ڈالرکی زرعی درآمدات کرتا ہے اور رواں مالی سال کے دوران خوردنی تیل کی درآمدات 4 ارب جبکہ کپاس کی درآمدات 2 ارب ڈالر ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری درآمدات کا اندازہ 75 ارب ڈالر جبکہ برآمدات 30 ارب ڈالر ہو سکتی ہیں، اس طرح ملک کا تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر رہنے کا امکان ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ گذشتہ دور حکومت میں آٹا 35 روپے سے 80 اور 90 روپے فی کلو جبکہ چینی 120 روپے تک بڑھ گئی جس کا بنیادی سبب عمران خان کی حکومت میں روپے کی قدر میں کی جانے والی نمایاں کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت عام آدمی کے ریلیف کیلئے چینی 70 روپے کلو پرفراہم کر رہی ہے جبکہ گھی پر بھی 195 روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں۔ ہمارے دور حکومت میں ڈالر 115 روپے کا تھا لیکن اسد عمر اور عمران خان کی ڈی ویلیو ایشن کی وجہ سے 180 روپے سے تجاوز کر گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان نے جھوٹ کا طوفان مچا رکھا ہے اور ان کو اپنے سوا سارا ملک غدار نظر آتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ملک بھر میں آپ ہی ایماندار رہ گئے ہیں۔ پٹرول سبسڈی کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ریمارکس پر انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ ہم پٹرول کی سبسڈی کے پیسے چھوڑ کر گئے لیکن بطور وزیر خزانہ مجھے نظر نہیں آئے، بتا دیں کہ وہ پیسے کہاں ہیں۔ انہوں نے گذشتہ دسمبر میں آئی ایم ایف سے خسارہ کو کم کرنے کا بھی وعدہ کیا لیکن اس میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور 18 تاریخ کو آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جو بھی وعدے کئے تھے ہم ان کو پورا کرنے کے پابند ہیں لیکن انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ نا ممکن معاملات طے کئے۔ ان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے جو تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا وعدہ کیا تھا اس کے مطابق تو آج اس کی قیمت میں 150 روپے فی لیٹر اضافہ ہونا چاہئے آج حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کر رہی کیونکہ پہلے ہی مہنگائی ہے اور اگر تیل مہنگا ہوا تو مزید مہنگائی ہو گی، وزیراعظم محمد شہباز شریف عوام پر بوجھ ڈالنے کیلئے بالکل تیار نہیں کیونکہ عوام مزید بوجھ برداشت کرنے کی متحمل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران حکومت نے ایک جانب آئی ایم ایف سے قیمتیں بڑھانے کا وعدہ کیا لیکن حکومت بچانے کے چکر میں ان کو مزید کم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ ہم نے اخراجات کم کئے جبکہ نواز شریف کے شاہانہ اخراجات تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں اگر ہیلی کاپٹر کے اخراجات کو نکال بھی دیا جائے تو بھی وزیراعظم آفس کے اخراجات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ حکومت چار سال میں ایل این جی منگوانی ہی بھول گئی اور تیل نہ ملنے کی وجہ سے کئی پاور پلانٹ بند ہو گئے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مستقبل میں اگر تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کم نہ ہوئی تو مجبوری ہو گی لیکن آج قیمت نہیں بڑھا رہے تاہم دوبارہ تعین کر سکتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پی ٹی آئی والے ہم کو سوشل میڈیا پر جھوٹ بولنے، بڑے بڑے جہازوں پر سفر، اربوں روپے کمانے اور تعیناتیوں کے حوالہ سے ہمیں لیکچر دیں لیکن خدارا معیشت کے بارے میں ہم کو لیکچر نہ دیئے جائیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر سٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، ہمارے بھی قرضے ہیں لیکن سری لنکا سے ان کا موازنہ نہیں کر سکتے، ہم آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں جائیں گے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اسد عمر عمران خان اور شیخ رشید کے ساتھ زیادہ رہتے ہیں لیکن میں توقع کرتا ہوں کہ وہ جھوٹ کم بولیں گے کیونکہ جتنے ذخائر یہ چھوڑ کر گئے اتنے آج تک موجود ہیں جن کی تصدیق سٹیٹ بینک سے کی جا سکتی ہے۔
مفتاح اسماعیل