بھیک نہیں تجارت ، امریکہ کی مخالفت کرنے والوں کے دبا ئو میں نہیں آئیں گے: بلاول
نیو یارک (خصوصی نامہ نگار) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھیک مانگنے کے بجائے تجارت پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر امریکہ مخالف نفرت پھیلانے والوں کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ امریکی میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تجارتی تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط کو جس طرح پورا کیا ہے، دنیا تسلیم کرے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو مشکل حالات میں کوئی بیل آؤٹ پیکیج دیئے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ ہمارا نظریہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تجارت کو امداد پر فوقیت دی جائے۔ ہم تجارت پر یقین رکھتے ہیں، بھیک پر نہیں۔ انٹونی بلنکن کے ساتھ 45 منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات کے بارے میں بلاول نے بتایا کہ یہ ملاقات بہت اچھی رہی۔ ملاقات میں باہمی تجارت پر بات کی گئی۔ ہر شعبے میں تعلقات میں بہتری لانے کی امید رکھتے ہیں۔ امریکہ کیساتھ تعلقات میں جتنی وسعت ہونی چاہیے تھی وہ اب تک نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی وجہ واقعات کے گرد گھومنے والا محدود رابطہ ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات دونوں کے مفاد میں ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح کی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جس طرح ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پاکستان نے پورا کیا ہے، اس کے بعد امید ہے کہ دنیا ان کامیابیوں کو تسلیم کرے گی۔ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کے سوال پر وزیر خارجہ نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ پاکستان میں امریکہ مخالف نعرے اور جذبات کو پھیلایا جا رہا ہے لیکن ہم عوام کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ ہمارا مقصد ملکی عوام کو فائدہ پہنچانا ہے۔ کل کسی کے دباؤ میں آئے تھے اور نہ آئندہ آئیں گے۔ سفارت کاری ایک الگ طریقہ کار ہے، یہ ایک ہنر ہے جس میں محنت کرنا پڑتی ہے۔ علاوہ ازیں بلاول نے مزید کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں افغانستان کی صورت حال پر بھی تبادل خیال کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل افغانستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ افغانستان میں جو انسانی بحران پیدا ہوا ہے، اس میں بہت ضروری ہے ہم اپنا کردار ادا کریں۔ افغانستان کے 90 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں، ہمیں اس عمل کو روکنا ہے۔ دنیا کو ساتھ مل کر کوشش کرنی چاہیے کہ افغان عوام غربت کی لکیر سے نیچے نہ جائیں اور افغانستان کے عوام کو یہ محسوس نہ کرنے دیا جائے کہ ان کو ایک بار پھر راستے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندر انسانی مسئلہ ہو یا دہشت گردی، اگر پاکستان اور امریکہ مل کر کام کریں تو مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں استحکام اور امن کے لیے کردار ادا کر رہا ہے اور کردار کسی اور کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے کر رہے ہیں کیونکہ ہم افغانستان کے عوام کی ترقی چاہتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں مک کو کسی بھی طرح کے منفی اثرات سے بچایا جا سکے۔ روس، یوکرین تنازع پر بلاول نے بتایا کہ تنازع کا اثر غذائی قلت پر ضرور ہوا ہے اور پاکستان جیسے ملک پہلے ہی سے خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار تھے۔ ملک میں پانی، بجلی اور توانائی کا بحران ایک حقیقت ہے۔ البتہ یوکرین بحران کی وجہ سے گندم اور یوریا کا بحران پیدا ہوا ہے لیکن پاکستان یہ مسائل پہلے بھی دیکھ رہا تھا۔ یوکرین روس تنازع کے حل کے لیے مذاکرات اور سفارتکاری کو موقع دیا جائے۔ اس جنگ کو ہمیں امن کی طرف لے جانا چاہیے تاکہ ہماری توجہ مل کر موسمیاتی تغیر جیسے چیلنجز اور دیگر اجتماعی مسائل کا مقابلہ کرنے پر ہو۔ انٹرویو کے دوران جب بلاول سے قریب کچھ روسی صحافیوں نے پوچھا کہ کیا آپ روس کا دورہ کرنا چاہیں گے تو مسکراتے ہوئے انہوں نے جواب دیا کہ کبھی ماسکو یا روس نہیں گیا لیکن اگر جانے کا موقع آیا تو ضرور جاؤں گا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ‘‘گلوبل فوڈ سکیورٹی’’ کے موضوع پر وزارتی اجلاس سے خطا ب کر تے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ خوراک کے بڑھتے ہوئے ایک ایسے عالمی بحران پر قابو پانے کے لیے مشترکہ کوششوں کے ساتھ مل کر کام کرے جس سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں جبکہ خوراک کا بحران سرحدوں کا پابند نہیں اور کوئی بھی ملک تنہا اس پر قابو نہیں پا سکتا۔ تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ لاکھوں لوگوں کو بھوک سے نکالنے کا ہمارا واحد موقع مل کر، فوری اور یکجہتی کے ساتھ کام کرنا ہے۔ اگر ہم مل کر کام کریں تو ہماری دنیا میں ہر ایک کے لیے کافی خوراک ہے۔ آنے والے مہینوں میں عالمی خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ صرف دو سالوں میں شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار لوگوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے، جو کہ 135 ملین سے آج 276 ملین ہو گئی ہے۔ لوگ قحط کے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 2016 کے بعد سے 500 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، یہ خوفناک اعداد و شمار ہیں جو تنازعات کی وجہ بن سکتے ہیں۔ خوراک اور کھاد کی سپلائی بڑھا کر فوری طور پر مارکیٹوں پر دباؤ کم کرنا چاہیے۔ برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے باوجود یوکرین کی خوراک کی پیداوار کے ساتھ ساتھ روس اور بیلاروس کی طرف سے تیار کردہ خوراک اور کھاد کو عالمی منڈیوں میں شامل کیے بغیر خوراک کے بحران کا کوئی موثر حل نہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ روس کو یوکرین کی بندرگاہوں میں ذخیرہ شدہ اناج کی محفوظ برآمد کی اجازت دینی چاہیے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نئی حکومت کی خارجہ پالیسی تبدیل ہے۔ بات چیت پر یقین رکھتے ہیں، ہم سب کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں کوئی ہمارا دشمن نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ سیاسی طور پر پاکستان میں اختلافات ہو سکتے ہیں، سابق وزیراعظم نے دورہ ماسکو خارجہ پالیسی کے تحت کیا، ان کے دورے کا دفاع کرتا ہوں۔ دورہ روس پر پاکستان کو قصور وار ٹھہرانا غلط ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان حکومت ناکام ہوگئی تو اندازہ لگائیں کیا ہو گا۔ پاکستان دونوں ممالک کے ساتھ ہے۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سلامتی کونسل میں امن اور سلامتی سے متعلق مباحثے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے تحت 76 سال قبل تشکیل دیا گیا ورلڈ آرڈر متزلزل ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ اسی مقصد کے لیے وجود میں آئی تھی، بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت سے سیاسی مذاکرات اکثر منجمد ہوئے اور یہ سلامتی کونسل مفلوج نظر آئی ہے۔ پرانے تنازعات ختم ہوتے اور نئے جنم لیتے ہیں، اس ادارے کی جانب سے اقدامات نہ ہونے پر کشمیری اپنی سرزمین اور اپنے گھر میں اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔