پاکستان کو معاشی تباہی سے بچانا ہوگا
پاکستان میں کئی بار حکومتوں نے مشکل وقت میں باگ ڈور سنبھالی لیکن شہباز شریف نے تو انتہائی زیادہ مشکل حالات میں حکومت کی ذمہ داری لے لی جس پر وہ شاید خود بھی کافی پریشان ہیں۔ ڈالر دو سو روپے تک پہنچ گیا ہے۔ را میٹریل مہنگا ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو مسائل ہیں۔ سابق حکومت نے نئی حکومت کو پریشان کرنے کے لیے پٹرول پر سبسڈی دی جس کی وجہ سے خزانے پر بے انتہا بوجھ پڑا ہے۔ خزانہ ویسے ہی خالی ہورہا ہے۔ پاکستان میں معاشی پالیسیوں میں ہمیشہ نقائص رہے ہیں۔ ہر حکومت نے ڈنگ ٹپاؤ معاشی پالیسیاں اختیار کیں اور اپنا کام چلایا۔ اس پالیسی کی وجہ سے جب کوئی نئی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو اسے مسائل کا پہاڑ ورثے میں مل جاتا ہے۔ پھر یہ حکومت بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہی کے تحت کام کرتی ہے اور مسائل کا انبار آنے والی حکومت کے لیے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔اب اس حکومت کو مجبورا پٹرول کی قیمت بڑھانے سمیت دوسرے سخت فیصلے کرنے پڑیں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف سے جان چھڑا کر اکانومی مضبوط کرنی پڑے گی۔ پاکستان کے اکنامک مینیجرز نے بھی کبھی ملک کے حقیقی وسائل کو سامنے رکھ کر پالیسی نہیں بنائی۔ یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ پاکستان کا اصل معاشی پوٹینشل کن کن شعبوں میں موجود ہے۔ کاغذات میں اور معاشی ماہرین کی تقریروں میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی معیشت کا حامل ملک ہے۔ یہ باتیں حقیقت بھی ہیں، آج بھی پاکستان میں تقریباً 70 فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح دیہی معیشت سے وابستہ ہیں۔ اس کے باوجود گراس روٹ لیول پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار انتہائی کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم رقبہ کے حامل زمینداروں کے لیے زیادہ مراعات نہیں ہیں۔بارانی علاقوں میں جہاں فصلوں کا دارومدار بارشوں یا ٹیوب ویل پر ہوتا ہے ‘ ان کی مالی مشکلات نہری زمین کے حامل کاشتکاروں سے زیادہ ہوتی ہیں جن زمینداروں نے ٹیوب ویل لگا رکھے ہیں ‘ انھیں بھاری بجلی کے بل ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اگر کسی نے پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والے چھوٹے ٹیوب ویل لگائے ہیں ان کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ بیج ‘ کھاد اور زرعی ادویات بہت مہنگی ہیں، ان وجوہات کی بنا پر چھوٹا کسان اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتا۔ اس کی فصل کو شہروں میں منڈی کے آڑھتی اونے پونے خرید لیتے ہیں۔ اس صورت حال پر ہمارے اکنامک مینیجرز نے کبھی کوئی منصوبہ سازی نہیں کی۔ ایگری بزنس کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو یہاں خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔مویشی پالنے والے کسانوں کو بھی حکومت کی جانب سے کچھ نہیں ملتا۔ زرعی بینکوں کے قرضے بڑے بڑے رقبوں کے مالک جاگیردار حاصل کر لیتے ہیں جب کہ چھوٹے کاشتکارکے لیے مویشی پالنا بھی خاصے خرچے کا کام بن گیا۔ پاکستان کے اکنامک مینیجرز اگر زرعی شعبے اور چھوٹے کسانوں پر توجہ دیتے اور ان کے حق میں پالیسیاں بناتے تو آج پاکستان میں سبزیاں مہنگی ہوتیں اور نہ ہی دیگر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا۔ صنعتی پالیسی میں بھی بہت مشکلات ہیں۔ اگر کوئی سرمایہ کار کوئی فیکٹری لگانا چاہتا ہے تو اس کی راہ میں بھی بے شمار بیوروکریٹک رکاوٹیں حائل ہیں۔ مختلف سرکاری محکموں کے اہلکار کاروباری افراد کو تنگ کرنے سے باز نہیں آتے۔ ادھر ٹیکس قوانین کی پیچیدگیاں بہت زیادہ ہیں۔ حکومت کا ٹیکس گزاروں کے ساتھ رویہ توہین آمیز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں بھی مانند پڑ رہی ہیں اور ٹیکس کے اہداف بھی حاصل نہیں ہوتے۔ سرکاری اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کی کرپشن کا راستہ بھی پیچیدہ اور یکطرفہ قوانین کے ذریعے کھلتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی ضروریات ‘مقامی ماحول‘ مقامی ثقافت اور پوٹینشل کو سامنے رکھ کر پالیسیاں تشکیل دے۔ زراعت کو ترقی دینے کے لیے کثیر الجہتی پالیسی اختیار کی جائے۔ مویشی پالنا بھی زرعی معیشت کا اہم حصہ ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ درخت بھی دیہی معیشت کا اہم حصہ ہوتے ہیں‘ حکومت کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ گلہ بانی اور درخت اگانے کے لیے بھی کسانوں کی مدد کرے۔اس طرح کسان خوشحال ہو جائے گا۔ دوسری جانب ٹیکس قوانین کو سادہ بنایا جائے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کو کم سے کم کیا جائے۔ حکومت معیشت پر بے جا قوانین نافذ کرے گی تو اس سے پیچیدگی ہو گی۔ صنعتکاروں کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے‘ پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر کسی نے کارخانہ لگانا ہے تو اسے ایک ہی جگہ سے ہر قسم کی منظوری حاصل ہونی چاہیے۔ اسی طرح شہروں میں ریٹیلرز اور دیگر کاروباری افراد کے لیے بھی آسانیاں پیدا کی جائیں۔ اس طریقے سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی اور روز گار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف کو یہ ایڈوانٹیج ہے کہ وہ ہر دلعزیز وزیراعظم ہیں۔ اس لیے اگر وہ پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچانے کے لیے
٭…٭…٭