• news

سسٹم کی اصلاح کے متقاضی سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے

پاکستان الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 25‘ ارکان پنجاب اسمبلی کیخلاف پارٹی فیصلہ کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس کا متفقہ فیصلہ صادر کرتے ہوئے انکی اسمبلی کی رکنیت ختم کر دی اور انکی نشستیں خالی قرار دے دیں۔ الیکشن کمیشن نے چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ کی سربراہی میں 23 صفحات پر مشتمل اپنے متفقہ فیصلہ میں قرار دیا کہ متعلقہ ارکان پنجاب اسمبلی نے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں اپنے پارٹی قائد کی ہدایات کے برعکس مخالف امیدوار کو ووٹ دیا جس سے ان کا اپنی پارٹی سے انحراف ثابت ہو گیا جو آئین کی دفعہ 63۔اے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق ایک سنگین معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن بھی یہی رائے رکھتا ہے کہ ارکان کا مخالف امیدوار کو ووٹ دینا پارٹی پالیسی سے دھوکہ دہی کی بدترین شکل ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے تحت نااہل قرار پانے والے پی ٹی آئی کی 25 میں سے پانچ ارکان خواتین‘ مزدور اور اقلیتی نشستوں پر پارٹی قیادت کی جانب سے نامزد کئے گئے تھے جن کی نااہلیت کے بعد اب تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ان خالی نشستوں پر نئے ارکان کی نامزدگی کیلئے کمیشن کو خط لکھا جائیگا اور دوسری 20 خالی نشستوں پر دو ماہ کے اندر اندر انتخاب کرایا جائیگا۔ چونکہ مخصوص نشستوں پر کسی پارٹی کے عام انتخابات میں منتخب ہونیوالے مجموعی ارکان کے تناسب سے اس پارٹی کے ارکان کی تعداد کا تعین ہوتا ہے اس لئے اب خالی ہونیوالی پانچ مخصوص نشستوں پر 20 نشستوں کے انتخابی نتائج کے بعد ہی نامزدگی ہو پائے گی اس لئے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں کم ہونے کا بھی امکان ہے۔ 
اس وقت اگرچہ پنجاب اسمبلی میں حکمران مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں کی جانب سے عددی اکثریت حاصل ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں اور اس حوالے سے جارحانہ انداز میں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ ہورہی ہے جس میں سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی پیش پیش نظر آتے ہیں جو پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے نامزد امیدوار بھی ہیں تاہم الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے فوری خاتمہ کا امکان کم ہی نظر آتا ہے جس کیلئے مسلم لیگ (ن) کے قائدین داعی بھی ہیں کہ منحرف ارکان کی نشستیں خالی ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو ہائوس میں عددی اکثریت حاصل ہے اس لئے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ کے منصب پر برقرار رہیں گے۔ چونکہ پی ٹی آئی کی 25 نشستیں خالی ہونے کے باعث اس وقت ہائوس میں کسی کو بھی عددی اکثریت حاصل نہیں رہی‘ اس لئے آئینی طریق کار اور قواعد و ضوابط کے مطابق یا تو گورنر پنجاب وزیراعلیٰ کو ہائوس میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے کہیں گے یا وزیراعلیٰ کا انتخاب ازسرنو عمل میں آئیگا۔ ان ہر دوصورتوں میں چونکہ مجموعی ارکان میں سے اکثریت حاصل کرنے والا آئینی تقاضا پورا نہیں ہو پائے گا اس لئے آئین کی دفعہ 130 کی ذیلی دفعہ 4 کو بروئے کار لا کر ہائوس میں موجود ارکان میں سے وزیراعلیٰ کے انتخاب یا اعتماد کے ووٹ کیلئے عددی اکثریت درکار ہوگی جس کیلئے مسلم لیگ (ن) کا اس وقت بھی عددی اکثریت حاصل ہونے کا دعویٰ قرین قیاس نظر آتا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے منحرف ہونیوالے پانچ ارکان آئین کی دفعہ 63۔اے میں سپریم کورٹ کی رولنگ کی روشنی میں اب اپنی پارٹی کیخلاف ووٹ دینے کا رسک نہیں لیں گے۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ کے انتخاب یا اعتماد کے ووٹ کیلئے اور بھی کئی آئینی اور قانونی موشگافیاں اور پیچیدگیاں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہیں جن میں گورنر کے منصب پر اب تک کسی کے تقرر کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہ ہونا بھی شامل ہے جبکہ گورنر نے ہی وزیراعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کیلئے کہنا ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے فوری خاتمہ کا امکان نظر نہیں آتا۔ 
ان آئینی اور قانونی پہلوئوں کے باوصف ملک میں اس وقت جارحانہ سیاسی محاذآرائی کے باعث غیریقینی اور سیاسی عدم استحکام کی جو فضا بن چکی ہے وہ سسٹم کے تسلسل و استحکام کے حوالے سے قوم کیلئے کسی خوشخبری کا ہرگز باعث نہیں بن رہی۔ بالخصوص پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد جس انداز میں پبلک جلسوں میں اپنے مخالفین پر الزام تراشی اور ان کیخلاف لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کیلئے سوشل میڈیا کو شدومد کے ساتھ برئوئے کار لایا جارہا ہے‘ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ملک میں انارکی اور خانہ جنگی کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس صورت میں سسٹم کا تسلسل اور استحکام بھی ایک خواب بن کر رہ جائیگا۔ ملک کے بدتر اقتصادی حالات ویسے ہی حکومتی گورننس کی بھد اڑاتے نظر آتے ہیں جس میں عوام عملاً راندۂ درگاہ بن چکے ہیں جبکہ ملک کی بقا و سالمیت کو بھی بے شمار اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں ملک کے حالات قومی سیاسی قیادتوں سے ہوش کے ناخن لینے کے متقاضی ہیں جن کی باہمی چپقلش و محاذآرائی سے اس وطن عزیز کے بدخواہوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ 
ملک کی بقا و سلامتی اور آزادی و خودمختاری کا تحفظ ریاستی آئینی اداروں اور قومی قائدین سمیت سب کی ذمہ داری ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ دو ماہ سے آئینی ریاستی اداروں کی جانب سے ملکی سیاسی حالات پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے اصلاح احوال کی کوششیں کی جارہی ہیں اور آئینی ذمہ داریاں نبھائی جا رہی ہیں۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے قومی سیاست میں فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کے سسٹم پر مرتب ہونیوالے مضر اثرات کے آگے بند باندھنے کیلئے جو طریق کار دکھایا اور متعین کیا ہے‘ اگر ہماری قومی سیاسی قیادتیں اپنے سیاسی مفادات سے ہٹ کر ان پر صاد کرلیں تو اس سے جمہوریت کی بنیاد مستحکم ہو سکتی ہے اور عوام کو بھی اسکے میٹھے پھل سے مستفید ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔ اگر ہماری قومی سیاست کی موجودہ روش ہی برقرار رہی تو سسٹم کی تباہی بعیداز قیاس نہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن