• news
  • image

پی ایس ایل کی گمشدہ گورننگ کونسل، سابق کرکٹرز کی پنشن!!!!

پاکستان سپر لیگ گورننگ کونسل کا اجلاس کیوں نہیں ہو رہا، یقیناً "فینز" کی نہ گورننگ کونسل میں کوئی دلچسپی ہے نہ ہی فینز کو خبر ہے کہ گورننگ کونسل میں شامل ارکان کون ہیں اور یہ کونسل بنتی کیسے ہے۔ فینز کے لیے اہمیتِ تو صرف پی ایس ایل کی ہے، فینز کو تو صرف پی ایس ایل میچز میں دلچسپی ہے اور یہ میچز ہوتے رہیں گے۔ کرکٹ بورڈ کو علم ہے کہ گورننگ کونسل کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مہنیوں گورننگ کونسل کی میٹنگ نہ ہو اس اہم معاملے پر کوئی توجہ نہ دی جائے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بورڈ تو صرف "فینز" کی خوشنودی اور انہیں تفریح فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے اور اس کی ساری توجہ ایسے مواد پر ہی رہتی ہے جہاں صرف روشنیاں دکھائی جائیں، رنگ روغن کی چیزیں پیش کی جاتی ہیں انہیں کیا لگے کسی گورننگ کونسل سے، اجلاس ہوتا ہے نہیں ہوتا ‘کسی کو کیا فکر ہے۔ فینز کو میچ دیکھنے ہیں وہ آئندہ برس بھی مل جائیں گے۔
یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ اس دور جمہوریت میں جہاں آزادی اظہارِ رائے کی بہت بات ہوتی ہے وہاں پاکستان سپر لیگ کی گورننگ کونسل کا آخری اجلاس غالباً ستمبر کے آخری ہفتے میں ہوا ہے۔ آٹھ ماہ گذر چکے ہیں گورننگ کونسل ارکان کو مل بیٹھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ ایک طرف کرکٹ بورڈ پی ایس ایل کو اپنا سب سے اہم ٹورنامنٹ مانتا ہے، سب کو ہر وقت پی ایس ایل کی فکر لاحق رہتی ہے دوسری طرف عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ آٹھ ماہ گذر چکے ہیں پی ایس ایل کی گورننگ کونسل کا کوئی اجلاس ہی نہیں ہوا، مقابلہ ہم آئی پی ایل کا کرنا چاہتے ہیں اور کام ہمارے ایک علاقائی لیگ سے بھی گئی گذرے ہیں۔ چیئرمین پی سی بی لیگ کو آکشن پر لے کر جانا چاہتے ہیں لیکن کیا وہ یہ کام اکیلے کریں گے، وہ پی ایس ایل کو بہت بڑا کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا وہ یہ کام اکیلے کریں گے، کیا پاکستان سپر لیگ کے معاملات اور اہم فیصلوں پر سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے یا آئندہ برس ہونے والے مقابلوں کے لیے مل بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیا کسی معاہدے میں نہیں لکھا کہ ہر دو یا تین ماہ بعد گورننگ کونسل کا اجلاس ضروری ہے۔ اگر گورننگ کونسل کی کوئی ضرورت ہی نہیں تو اسے ختم کر دیں، اگر ان کے ارکان اتنے ہی غیر اہم ہیں تو انہیں خط لکھ کر کہہ دیں کہ آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر مقرر کردہ وقت پر میٹنگ نہ ہونے میں کیا رکاوٹ ہے۔ اس میٹنگ کے نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کونسل ارکان سے ملنا نہیں چاہتے دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ ان کے سوالات کے جوابات نہیں دینا چاہتے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے خیال میں میٹنگ کی کوئی ضرورت نہیں، مشاورت کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ بس جو "باس" کہیں گے اس پر ہر حال میں عمل کیا جائے۔اگر پاکستان سپر لیگ آج منافع بخش ٹورنامنٹ ہے تو اس میں سٹیک ہولڈرز کا کردار بہت اہم ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ سٹیک ہولڈرز کو مشاورت سے بھی دور رکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ فینز کے لیے بڑھ چڑھ کر بیانات، اقدامات اٹھاتا ہے لیکن جن کی وجہ سے فینز سٹیڈیم تک آتے ہیں ان کے ساتھ بات چیت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ کیا بورڈ نہیں جانتا کہ فینز تو صرف میچ دیکھتے ہیں میچ سے پہلے کی ساری جدوجہد سے فینز کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر اس جدوجہد پر سمجھوتا کیا گیا تو نہ فینز رہیں گے نہ کوئی فینز کی خبریں جاری کرنے والوں کو پوچھے گا۔ گورننگ کونسل یا گورننگ بورڈ یا ان کی ذیلی کمیٹیاں کتنی اہم ہیں ادارہ چلانے والے بخوبی واقف ہیں۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ بابر اعظم کے بھائی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں پریکٹس کرتے رہے حالانکہ یہ جگہ صرف اور صرف مخصوص کرکٹرز کے لیے ہے۔ وہ تو بھلا ہو سفیر اعظم کا انہوں نے خود ہی ویڈیو شیئر کر دی ورنہ کسی کو کیا پتہ چلتا‘ بابر تو موجودہ کپتان ہیں‘ یہاں تو سابق کرکٹرز کے بچے اور افسران کے پسندیدہ بھی کھیلتے رہتے ہیں، بورڈ آفیشلز جم استعمال کرتے ہیں، دیگر سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن کوئی روک ٹوک نہیں کیونکہ ان کی ویڈیوز یا تصاویر سامنے نہیں آتیں۔ اکیڈمی کے ان ڈور میں تو ایسے ایسے لوگ بھی کھیلتے رہے ہیں ‘اگر قواعد و ضوابط پر عمل کیا جائے تو انہیں اندر آنے کی بھی اجازت نہ ملے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اجازت دینے والوں نے ہی بابر اعظم کو بھی سمجھا دیا ہے۔ نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر میں تو ناپسندیدہ ٹیسٹ کرکٹرز کو بھی داخلے سے روک دیا جاتا ہے لیکن جہاں "باس" اجازت دیں تو پھر ٹیسٹ کرکٹر ہونا یا نہ ہونا معنی نہیں رکھتا۔ جب سب کے بچے، دوست بابر کے سامنے کھیل رہے ہوں اور اسے یہ سمجھایا جائے کہ تمہارے بھائی کو نہیں کھیلنا چاہیے تو بابر سمجھانے والوں کو دیکھ کر صرف مسکرا ہی سکتا ہے۔ قصہ مختصر کہ نہ سفیر اعظم وڈیو شیئر کرتے نہ معاملہ یہاں تک پہنچتا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے سابق کرکٹرز کی پنشن میں ایک لاکھ روپے کا اضافہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کئی سابق کرکٹرز کے لیے یہ اضافہ بہت اہمیت رکھتا ہے، بہت سے ایسے ہیں جنہیں اس رقم کی بہت ضرورت تھی جبکہ مستقبل میں بھی کئی ایسے کرکٹرز ضرور اس فہرست میں شامل ہوں گے جو اس اضافے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور کرکٹرز نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ساری زندگی کھیل کے میدانوں کو دینے والے کرکٹرز کی فلاح کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے مسلسل کام ہونا چاہیے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن