کرکٹ بورڈ میں وسائل کی تقسیم، کون نظر انداز ہو رہا ہے؟؟؟
موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے فون اٹینڈ کرتا ہوں دوسری طرف سے السلام علیکم کے بعد حال پوچھا جاتا ہے اور شکایت کے انداز میں کہا جاتا ہے حافظ صاحب آپ نے رمیز راجہ صاحب کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مبارکباد کا مستحق قرار دیا ہے لیکن کیا آپ نے سوچا ہے کہ کرکٹ صرف کرکٹرز تک ہی محدود نہیں ہے، ٹی وی پر نظر آنے والے ان کرکٹرز کو یہاں تک پہنچانے اور ایک کرکٹ میچ کے کامیاب انعقاد میں کرکٹرز کے علاوہ بھی کئی لوگ شامل ہوتے ہیں لیکن کیا ناانصافی ہے کہ جب مراعات، انعامات، اعزازات اور معاوضوں کی بات ہوتی ہے تو صرف کرکٹرز کی طرف دیکھا جاتا ہے، انہیں نوازا جاتا ہے، ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں اگر سب کچھ صرف کرکٹرز ہی کرتے ہیں تو پھر سٹیڈیمز کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی وہ خود ہی ادا کریں، کیوں گراؤنڈ سٹاف کو نظر انداز کیا جاتا ہے، یہ طبقہ اس حد تک دبا ہوا ہے کہ ہر کوئی ان پر حکم چلانا اپنا فرض سمجھتا ہے حالانکہ یہ سب کم معاوضے میں موسموں کی سختی برداشت کرتے ہوئے ایک ایسا گراؤنڈ تیار کرتے ہیں جہاں کرکٹرز کھیل کر داد وصول کرتے ہیں۔ جس پچ پر وہ رنز بناتے یا وکٹیں حاصل کرتے ہیں اسے بنانے میں درجن بھر لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے لیکن کوئی ان کی بہتری کے لیے نہیں سوچتا، کیا ان لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے۔
آپ نے رمیز راجہ کے اس اقدام کو سراہا اچھا کیا لیکن کیا بورڈ کے خزانے پر ہر گیند کو ریکارڈ کا حصہ بنانے والے سکورر کا کوئی حق نہیں ہے، کیا سکورر کی کرکٹ میچ میں کوئی اہمیت نہیں ہے، کیا اسے نظر انداز کرنا ممکن ہے، کیا بورڈ حکام سکورر کو دیا جانے والا معاوضہ عوام کو بتا سکتے ہیں اگر سابق کرکٹرز کی پنشن میں ایک لاکھ اضافے کا بیان جاری ہوا ہے تو براہ کرم سکورر کی ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل میچ کی فیس بارے بھی بیان جاری کیا جائے تاکہ حقائق لوگوں کے علم میں آئیں اور پتہ چلے کہ وسائل کی تقسیم میں کس حد تک ناانصافی ہو رہی ہے۔ شاید لوگ یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ سخت موسم میں سکورر کن حالات میں ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں لیکن ان کی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ شاید کچھ لوگ ذہنی دباؤ کی وجہ سے بیمار بھی ہو رہے ہیں لیکن کسی کو کرکٹ کے ان خدمت گاروں کی کوئی فکر نہیں۔
چلیں امپائرز کی بات کر لیں، کرکٹ میچ میں انصاف جیسے سب سے شعبے کو بھی اس کا جائز حق اور مقام نہیں دیا جاتا۔ بدقسمتی سے کرکٹ میں انصاف کے شعبے سے منسلک افراد کیساتھ مسلسل ناانصافی ہو رہی ہے، کیا تقرریاں میرٹ پر ہو رہی ہیں، کیا ایوارڈز میرٹ پر دیئے جا رہے ہیں، کیا امپائرز کے معاوضے ایسے ہیں کہ کوئی اس طرف آنا چاہے گا، کیا کوئی ضمانت دے سکتا ہے کہ پاکستان کا سب سے کامیاب کرکٹر ایک اچھا امپائر بن سکتا ہے اگر نہیں تو پھر امپائرز کی بہتر زندگی کے لیے کام کیوں نہیں ہوتا۔ کیا پاکستانی امپائرز بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن نہیں کر رہے، کیا وہ بین الاقوامی سطح پر انصاف کے اس اہم ترین شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا رہے، کیا دنیا ان کی تعریف نہیں کر رہی، اگر وہ پرفارم کر رہے ہیں تو کیا ان کا خیال رکھنا کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری نہیں ہے۔چلیں میچ ریفریز کو دیکھ لیں کیا ان کے بغیر میچ کا انعقاد ممکن ہے۔ کیا یہ غیر اہم ہیں، گذشتہ چند برسوں میں کرکٹ بورڈ نے اپنے ریفریز کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے کچھ کیا ہے، کیا کسی قسم کورسز کروائے ہیں، کیا معاوضوں میں اضافہ ہوا ہے، کیا ان کے بہن بھائی، بیوی بچے نہیں ہیں، کیا ان کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہے، کیا ان کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانا پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری نہیں ہے، کیا عزت کی زندگی اور کھیل کے میدانوں سے الگ ہونے کے بعد پرسکون زندگی کا حق صرف کرکٹرز کو ہے۔ حافظ صاحب یہ وسائل کی ناجائز تقسیم ہے، اسے اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک طرف محل تعمیر ہو رہے ہوں اور دوسری طرف دوائی خریدنے یا بچوں کی اچھے سکول میں تعلیم کے لیے پیسے نہ ہوں، ایک طرف نئے ماڈل کی لگژری گاڑیاں ہوں اور دوسری طرف بجلی کا بل مشکل سے ادا ہو تو پھر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایسا کب تک چلے گا کب کھیل سے جڑے دیگر لوگوں کو اہمیت اور ان کا جائز حق اور مقام دیا جائیگا، برسوں سے میں نے تو ایسا کچھ نہیں دیکھا جو ماضی میں ہوتا رہا اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ چلیں آپکا بہت شکریہ، خاصا وقت لے لیا۔ امید ہے آپ آئندہ راجہ صاحب کو مبارک باد مستحق قرار دیتے ہوئے ان پہلوؤں پر بھی غور فرمائیں گے اجازت چاہتا ہوں اللہ حافظ۔
فون بند ہوا یقیناً یہ مسائل حل طلب ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹرز کی پنشن بڑھانا درست اقدام ہے لیکن جب ایسے فیصلے ہوتے ہیں تو پھر کھیل سے منسلک دیگر افراد میں احساس محرومی پیدا ہونا غیر معمولی نہیں ہے۔ ملک میں بہت سے ایسے کرکٹرز بھی ہیں جو بہت باصلاحیت لیکن بدقسمت تھے، کچھ ایسے وقت میں کھیلتے رہے جب قومی ٹیم میں جگہ نہیں بن سکتی تھی، کچھ ایسے جو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلے ان سب کے لیے بھی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ان سب کے ساتھ ویلفیئر پالیسی میں گراؤنڈ سٹاف اور میچ آفیشلز کو بھی شامل کیا جائے۔ میچ آفیشلز کے معاوضوں پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔