• news

علامہ سید باقر دہلوی۔اردو کے پہلے شہید صحافی

برصغیرمیں اُردو کے پہلے شہید صحافی علامہ سید باقر دہلوی ہیںجنھیں مولوی محمد باقر کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔مولوی محمد باقر 1780 میں دہلی میں پیدا ہوئے،آپ اردو زبان کے مشہور ادیب اور شاعر محمد حسین آزاد کے والد تھے۔ مولوی محمد باقر شہیدصحافت میں آنے سے پہلے دلی کالج میں استاد تھے ،اردو،انگریزی،فارسی اورعربی زبان پر عبور حاصل تھا۔آپ کی علمی قابلیت سے متاثر ہوکر شاہجہاں آباد کے کلیکٹر’’مٹکاف‘‘ نے استاد سے کلیکٹر کے عہدے پر تعینات کردیا اورپھر کچھ عرصہ بعدترقی دے کر دہلی کا تحصیلدار بنا دیا۔ ہندوستان میں جب انگریزوں کے مظالم حد سے زیادہ بڑھنے لگے تو مولوی محمد باقر نے تحصیلدار کی نوکری چھوڑ دی اورانگریزوں کے خلاف قلم اُٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے سن 1837میں اُردو کے پہلے باقاعدہ اخبار’’ اخبار دہلی‘‘ کا آغاز کیا۔’’اخبار دہلی‘‘ ایک ہفت روزہ اخبار تھا جس کی ماہانہ قیمت دو روپے تھی۔ہندوستان میں یہ اُردو کا پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جس میں’’ حضوروالا‘‘ کے عنوان کے ساتھ مغل بادشاہ اورشہزادوں کی خبروں کے علاوہ’’ صاحب کلاں‘‘ عنوان کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریںبھی شائع کی جاتی تھیں ۔ اخبار میں دیگرسیاسی و تعلیمی سرگرمیوں، مذہبی مضامین ، ادبی تحریریں اور معروف شعراء مومن، ذوق، غالب، بہادرشاہ ظفراور زینت محل کا کلام بھی شائع کیا جاتا تھااس کے باوجودخبار کا اصل مقصد ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔ 10 مئی 1840کو اخبار کا نام ’’اخبار دہلی ‘‘سے  تبدیل کرکے ’’دہلی اُردو اخبار‘‘ رکھ دیا ۔اخبار عوام میں مقبول ہونے لگا اور مولوی محمد باقر ایک مشہور صحافی بن گئے۔
1857 میں جب ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا اعلان کیا تو اس اخبار کا نام ’’اخبار الظفر‘‘ رکھ دیا گیا تاکہ تحریک آزادی کوبادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مناسبت سے تقویت مل سکے۔’’اخبار الظفر‘‘ میں انگریز سرکار کے خلاف کھل کر بغاوت اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حمایت کی جانے لگی۔اخبار میں انگریزوں کے مختلف علاقوں میں ڈھائے جانے والے مظالم سے بھی پردہ اٹھایا جانے لگا۔انگریزوں نے تحریک جنگ آزادی کو دبانے کے لئے بہت سی گھناونی سازشیں کیں جنھیںمولوی محمد باقر نے اپنے اخبار ،تحریروں اور رپورٹنگ کے ذریعے ناکام بنا دیا۔جب دہلی میںتحریک آزادی کو عروج ملا تو انگریزوں نے ایک سازش کے تحت مسلمانوں کی جانب سے ہندووں کے خلاف جہاد کرنے کے اشتہار چھپوا کرلگوادیئے تاکہ مسلمان اور ہندو وں میں فساد پیدا ہوجائے اور تحریک آزادی کمزور پڑ کر ناکام ہوجائے۔ہندووں کے خلاف مسلمانوں کے جھوٹے اشتہار ات کی سازش کو مولوی محمد باقر نے بھانپ لیا اور اخبار میں اپنی تحریروں کے ذریعے اس سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے مسلمان اور ہندووں میں فساد برپا ہونے سے روک دیا۔
اپنے اخبار میں وہ آزادی کی جنگ کے تمام تر حالات و واقعات کی رپورٹنگ (آنکھوں دیکھا حال) اور قلمی نام سے ہندستانیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے مضامین شائع کرتے جن کی وجہ سے انگریز سرکاربوکھلاہٹ کا شکارہونے لگی۔ انگریزمولوی محمد باقر کے سخت خلاف ہوگئے اوران کو جان سے مارنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ بدقسمتی سے جب انگریزوں کا دہلی پر دوبارہ قبضہ ہوگیا تو انھوں نے پہلے سے تیارکردہ سازش کے تحت مولوی محمد باقرکو ایک ایسے انگریز کے قتل کے جرم میں گرفتار کرلیاجسے دہلی میں عوامی ہجوم نے پیٹ کر مار دیا تھا۔جب مولوی محمد باقر کوفرنگی جاسوسی محکمہ کے انچارج کیپٹن ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیاتو اس نے انگریز سرکار کی منشاء کے مطابق مولوی محمد باقر کو توپ کے گولے سے شہید کرنے کاحکم سنادیا۔ مولوی محمد باقر کی سزائے موت سے قبل ان کا بیٹا آزاد حسین جب بھیس بدل کر اپنے والد کا آخری دیدار کرنے گیا تو اس وقت مولوی محمدباقر نماز ادا کررہے تھے،نماز ادا کرنے کے بعد جب باپ بیٹے کی نظریں ملیں تودونوںخاموش رہے پھرمولوی محمد باقر نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کردیئے جوبیٹے کے لئے اس بات کا اشارہ تھا کہ ہماری آخری ملاقات ہوگئی ہے اب چلے جاو ،کہیں انگریز تمھیں بھی ناحق سزا نہ دے دیں۔صورتحال کو بھانپتے ہوئے بیٹا دل کے آنسولئے وہاں سے چلا گیا۔ 16ستمبر 1857 کو انگریزوں نے مولوی محمد باقرکو دہلی میں خونی دروازے کے سامنے میدان میں توپ کے نشانے پر باندھ کر کھڑا کردیا اور پھر توپ کا ایک بڑا گولہ ان کے جسم پر داغ کر انھیں شہید کردیا گیا ۔ مولوی محمد باقر اردو صحافت کے پہلے ایسے صحافی تھے جنھیں توپ کے گولے سے شہید کیا گیا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن