سپریم کورٹ کا سو موٹو نوٹس اختیار سماعت
سو موٹو یا از خود نوٹس ایک منفرد اور موثر اعلیٰ عدالتی اختیار سماعت ہے۔ پاکستان، انڈیا، مالدیپ، اور بنگلہ دیش ایسے ممالک ہیں جہاں سپریم کورٹ کا از خود نوٹس کے ذریعہ اختیار سماعت آئین میں درج ہے۔ امریکا، کینیڈا، آسڑیلیا، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اعلی ترین عدالت از خود نوٹس کا اختیار سماعت نہیں رکھتی، پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 184 (3) سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار سماعت سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ مفاد عامہ کے تحفظ کے لیے کسی بھی ایسے معاملے کا ازخود نوٹس لے سکتی ہے جس کے بارے میں اعلی عدلیہ یہ خیال کرے کہ اس معاملہ کا عام عوام کے بْنیادی حقوق اور مفاد سے گہرا تعلق ہے۔ اور اعلی عدالت کی مداخلت اس معاملہ میں ناگزیر ہے وگرنہ مفاد عامہ کا تحفظ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ از خود نوٹس کیس کے نتیجہ میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی، وزیراعظم کا اسمبلی توڑنے کا حکم غیر موثر ہوگیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے از خود کیس میں اْس وقت کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے بشمول وزیراعظم، اور وفاقی وزراء کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ، اور آدھی رات کو اعلی عدالت کے کْھلنے کے عمل کو بھی عوامی جلسوں میں آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی طرح اب شہباز شریف کی حکومت کے وزرائ، خصوصاً وزیرِداخلہ ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ یہ بات عمومی طور پر کہی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جس فریق کے حق میں آجائے تو وہ تعریف و ستائش کے ڈونگرے بجانے لگتا ہے، لیکن اگر فیصلہ خلاف آجائے تو اْس کی توپوں کا رْخ اعلی عدلیہ کی طرف ہوجاتا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ اعلی عدالت کا یہ اختیار بے جا تنقید سے بالاتر ہوجائے، اور معاشرے میں کوئی عدالت کے اس دائرہ اختیار پر اْنگلی نہ اْٹھا سکے۔
صرف دو اقدامات ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے اعلی عدلیہ پر تنقید کے امکانات کو معدوم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا اقدام تو سوموٹو نوٹس لینے کے طریقہ کار میں تبدیلی سے ہے۔ ایک ایسا اختیار جو پورے سیاسی نظام کو تلپٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور پورے چوبیس کروڑ عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہوسکتا ہو، یہ کسی ایک فرد کی جنبش قلم کی بجائے انصاف کے نہایت اعلی و ارفع اصولوں کے تحت کیا جائے تو ہر قسم کے اعتراض اور تنقید سے بچا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان طے کرسکتی ہے کہ کل ججز کی نصف تعداد سے ایک جج کم یا ون تھرڈ آف ٹوٹل ججز اگر مْتفق ہوں گے تو سو موٹو اختیار سماعت استعمال کیا جاسکے گا، اس عمل سے زیادہ شفافیت آئے گی اور اعتراض کی گنجائش ختم ہو جائے گی چونکہ یہ انصاف کے اعلی عالمی اصولوں کے عین مطابق بھی ہوگا۔ دوسری تجویز یا اقدام کا تعلق سپریم کورٹ کے بنچ کی تشکیل کیاختیار سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ کے بنچ کی تشکیل بھی ایک فرد یعنی چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ اب اس اختیار کے حوالے سے بھی تنقید کی جارہی ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک خط کے ذریعہ جو چیف جسٹس کے نام لکھا گیا، میں چیف جسٹس کے بنچ تشکیل دینے کے اختیار کو بہتر بنانے پر توجہ مبذول کرائی گئی، اور خاص طور پر سینئر ترین ججز کو ہی لارجر بنچ میں شامل کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ اس سے ملتے جلتے الفاظ میں سپریم کورٹ کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جج جناب جسٹس مقبول باقر نے اپنے اعزاز میں دیے گئے ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنچ کی تشکیل کے طریقہ کار میں تبدیلی آنی چاہیے جس سے اس تاثر کی نفی ہوگی کہ بنچ کی تشکیل میں اعلی عدلیہ پر کسی اور ادارے کی طرف سے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔
دوسری اور آخری تجویز یہ ہے کہ سوموٹو کے تحت جو مقدمات سْنے جائیں وہ لارجر بنچ ہی نہیں بلکہ پوری سپریم کورٹ فیصلہ کرے۔ خصوصاًْ ایسے سوموٹو نوٹسز جن میں آئین اور قانون سے متعلق کسی شق کی تشریح اور توضیح سے متعلق معاملہ زیر بحث ہو جس کے گہرے اثرات مْلک کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام پر پڑتے ہوں تو سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل فْل کورٹ بنچ اس طرح کے مقدمات کا فیصلہ کرے۔ جس طرح امریکی سپریم کورٹ کے تمام ججز اکثریتی رائے سے فیصلہ کرتے ہیں اور وہاں سنگل بنچ، ڈبل بنچ یا لارجر بنچ بنانے کا سرے سے تصور ہی موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں اگر یہ دو ترامیم ہوجائیں، چاہے تو سپریم کورٹ از خود یہ شرائط لاگو کرلے، یا پارلیمنٹ آئین میں ترمیم یا قانون پاس کرکے سو موٹو اختیار سماعت کی حدود و قیود کا تعین کردے تو بڑی حد تک سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیار سماعت کو عوام اور خصوصاً سیاست اور قانوں کے شعبہ سے منسلک افراد میں شرف قبولیت بخشا جاسکتا ہے۔