پاک ایران مشترکہ تجارت میںاہم پیشرفت
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ لاہور میں تین روزہ پاک ایران تجارتی نمائش منعقد ہونے جارہی ہے ۔ 24 سے 26 مئی تک منعقد ہونے والی یہ مشترکہ نمائش انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ جس سے یقینا دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا۔ کیونکہ تجارت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔امیدہے کہ یہ نمائش دونوں ممالک کے درمیان تجارتی ترقی کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس نمائش کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں بارٹر تجارت کو اہمیت دی جارہی ہے۔ چونکہ ایران بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے اورپاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات میں ایک بڑی مشکل اور رکاوٹ باقاعدہ بینکنگ نظام کا نہ ہونا ہے جس کیلئے پاکستان اور ایران کے تجارتی ماہرین اور چیمبرز نے بارٹر ٹریڈ کا حل نکالا ہے ۔ جس پر گذشتہ سال سے حکومتی اور چیمبرز کی سطح پر مزاکرات اور کوششیں ہورہی تھیں اور اب یہ کوششیں بارآور ثابت ہونے جارہی ہیں۔اس مقصد کیلئے حال ہی میں لاہور چیمبر آف کامرس کا پاکستانی وفد ایران کا دورہ کر کے آچکا ہے اور اسکے بہتر نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ لاہور میں موجود ایرانی قونصل جنرل محمدرضاناظری کی مخلصانہ کوششیں قابل قدر ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و ثقافتی تعلقات اور دوستی میں انکے دور میں اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ انکے قابل تحسین اقدامات میں سے ایک آن لائن ویزہ سسٹم ہے جس میں گھر بیٹھے ویزے کیلئے اپلائی کرسکتے ہیں۔ آن لائن ویزہ کی سہولت سے زائرین اور تجار کیلئے بہت آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ایرانی قونصلیٹ کے اقدامات سے گذشتہ برس ایرانی چیمبر نے پاکستان کا دورہ کیا اور دو ماہ قبل لاہور چیمبر کا وفد بھی ایران کا دورہ کرچکا ہے ۔اور دونوں ممالک بارٹر ٹرید کے لئے اہم کوششیں کررہے ہیں۔بارٹر ٹریڈ ایک ایسا تجارتی طریقہ کار ہے جس میں ہم بینکنگ نظام کے بغیر اشیاء کے تبادلے کے ذریعے تجارت کر سکتے ہیں جس سے نہ صرف سمگلنگ کی روک تھام ہوگی بلکہ باقاعدہ طریقے سے تجارت بھی ممکن ہو سکے گی جس سے یقینا ملک کو فائدہ ہوگا۔تجارتی لحاظ سے اس وقت ہماری بہت سی ضروریات جن کی ہمارے ملک میں کمی ہے ہم اپنے پڑوسی اوربرادر ملک ایران سے حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن اس میں اب تک جو رکاوٹ ہے وہ ایران میں بین الاقوامی بینکنگ نظام کا نہ ہونا ہے ۔ ہمارے ملک میں گیس، بجلی اور توانائی کے علاوہ دیگر بہت سی اشیا کی قلت ہوتی ہے جو کہ ہمارے ہمسائے اوربرادر ملک کے پاس وافر مقدار میں موجود ہے لیکن اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اب تک ہم اسے حاصل نہیں کرسکے۔ ہمارے ملک میں چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں لیکن پاک ایران گیس معاہدہ گمنام ہوکر رہ گیا ہے جبکہ ایران نے پاکستانی بارڈر تک گیس پائپ لائن کئی سال پہلے سے بچھا رکھی ہے ۔ایران میں پٹرول 16 سے 20 روپے لٹر فروخت ہورہا ہے جبکہ یہاں قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں کیونکہ ہم بین الاقوامی دباو میں آکرنزدیک کے سستے کی بجائے کی بجائے دور سے مہنگا پٹرول خریدنے پر مجبور ہیں۔ دشمن کبھی بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان اور ایران کے حالات بہتر ہوں ۔ ان تمام دباو سے نکلنے کی ہمت اور تدبیر کرنا ہوگی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اغیار کے دباو میں آکر ہم اپنے برادر اسلامی ملک جس کی ایک طویل سرحد ہمارے ساتھ ملتی ہے کے ساتھ کھل کر تجارت بھی نہیں کر سکتے ۔ حالانکہ پاکستان اور ایران گہرے دینی، جغرافیائی، ثقافتی، سیاحتی ، تجارتی یا سرحدی، قدیم روابط میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان برادرانہ تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اگر دونوں ممالک پاکستان اور ایران ہمت کریں اور تجارتی اور اقتصادی معاملات پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہو تو دونوں ممالک کی بہت سی مشکلات آسان ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی کوششیں جاری ہیں۔ اسی طرح ہمیں فخر ہے کہ ہمارا دوست ملک ایران جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور ہمیں گیس، بجلی پٹرول دیگر مصنوعات کی برادرانہ پیشکش کرتا رہا ہے ۔لیکن نادیدہ عوامل ہمیں روکے ہوئے ہیں اور مہنگائی کی دلدل میں پھنسے جارہے ہیں۔ ایران کی پیشکشیں اپنی جگہ لیکن وقت ہے کہ ہم سنجیدگی سے اس پر غورکریں اوراہم اقدامات کریں۔ ایران سے ہم اپنی کی ضروریات جس میں ہائیڈرو کاربن گیس، لیکویڈ گیس، خشک اورتازہ کجھور، سیرامک، خشک سبزیاں، تازہ اور خشک پستہ، قالین، ہینڈی کرافٹ، سٹیل، تازہ جوسز، دودھ اور کریم، چاکلیٹ اور مٹھائیوں کے علاوہ بے شمار اشیا لے سکتے ہیںجبکہ ایران اپنی ضروریات چاول کے ، تازہ اور خشک امرود، تیار ملبوسات، پولیمر، ٹیکسٹائل فیبرکس، طبی آلات، گوشت اور آم سمیت دیگر اشیا کے علاوہ بیشمار اشیا پاکستان سے لے سکتا ہے ۔اس وقت دونوں ممالک کے درمیاں سرحدی ٹرمینلز، ریل ٹرانسپورٹ، سڑکیں اور مارکیٹیں دوطرفہ اقتصادی تعاون کو فروغ دینے میں مدد دینے کا ایک اچھا موقع اور ماحول دستیاب ہے ۔ایران سے پاکستان اور پھر ترکی سے ٹرین کے ذریعے تجارت کا آغاز بھی کیا گیا ہے جس کا دائرہ یورپ تک پھیلایا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کے صدر عارف علوی نے بھی ترکمانستان میں منعقدہ ای سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان بارٹر سسٹم کے ذریعے تجارت کے نفاذ اور اقتصادی رابطوں کو فروغ دینے کیلئے مشترکہ اجلاسوں کے انعقاد پر زور دیا ۔ مشترکہ سرحدی بازاروں کے قیام سے ایران اور پاکستان کے درمیان سالانہ پانچ ارب ڈالر کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے ۔ان سرحدی بازاروں کے قیام سے نہ صرف تجارت میں اضافہ ہوگا جبکہ غیر قانونی سمگلنگ کی بھی روک تھام ہو گی۔ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اپنے ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ہمیں کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر صرف اپنے ملک کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ہمسایہ برادر ملک کے ساتھ سیاسی، اقصادی، تجارتی، سیاحتی، ثقافتی تعلیمی میدانوں میں بھرپور تعلقات پیدا کرنے چاہئے ۔