• news
  • image

صدارتی ریفرنس اور عدالتی تشریح 

پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے پاکستان کا پہلا آئین9 سال کی مدت میں متفرق شقوں اور قرار دادوں کی بنیاد پر مرتب کیا جس کا 29، فروری 1956ء کو رات 11 بجکر 59 منٹ پر منظور کرنے کا اعلان کیا گیاتھا ، اس آئین کا مسودہ 9 جنوری1956ء میں اس وقت کے وزیر قانون اسماعیل ابراہیم چندریگرنے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا، اس آئین کی توثیق صدر اسکندر مرزا نے کی تھی ، جب کہ عوامی لیگ ، آزاد پاکستان پارٹی ، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ، کانگریس پارٹی ، یونائیٹڈ پروگریسیو پارٹی اور تین اقلیتی ارکان نے واک آئوٹ کر کے آئین کی منظور ی میں حصہ نہیں لیا ، آئین وفاقی نوعیت پر مشتمل 234 آرٹیکل اور 6 شیڈولز پر مشتمل مغربی اور مشرقی پاکستان کو یکساں حیثیت دینے کا ضامن قرار پایا تھا، یہ آئین اپنے نفاذ کے 2 سال 6  ماہ بعد 7 اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے تحت ختم کر دیا گیا تھا۔ مارشل کے خاتمے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے مختلف سیاسی جماعتوں کی افہام و تفہیم سے آئین کی تشکیل کیلئے ایک کمیٹی قائم کی ، کمیٹی کا مقصد ملک میں نیا اور متفقہ آئین بنا نا تھا ، آٹھ ماہ کی شب وروز محنت کے بعد آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کی ، 10 اپریل 1973 ء کو رپورٹ پیش ہوئی ، 14، اگست 1973 ء کو پاکستان کا نیا اور متفقہ آئین نافذ کر دیا گیا جو کہ اسمبلی کی اکثریت 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ منظور کیا گیا تھا۔ 
حکمران طبقہ کے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے آئینی دفعات کی تشریح اپنے حق میں لانے اوراسمبلی میں تنازع کی پیشِ نظر آئینی شقوںکی تشریح کیلئے صدرِ مملکت آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت عدالتِ عالیہ میں ریفرنس دائر کر نے کے مجازہیں ،پہلا آئینی ریفرنس گورنر جنرل غلام محمد نے امور مملکت کو اپنے ماتحت کرنے اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بارے میں عدالتِ عالیہ سے ریفرنس کے ذریعے رائے مانگی تھی ، دوسرا ریفرنس صدر فضل الٰہی چوہدری نے 1973 ء کے آئین کے تحت سپریم کورٹ میں دائر کیا جو کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے بارے میں تھا ، 1989 ء میں صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 186 کو دو مرتبہ استعمال کیا ، صدر فضل الٰہی چوہدری ، صدر اسحاق خان کے علاوہ صدر فاروق احمد خان لغاری ، جنرل پرویز مشرف ، سابق صدر آصف علی زرداری ،1973 ء کے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کرنے کا حق استعمال کر چکے ہیں ۔قومی اسمبلی میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد صدر ڈاکٹر عارف علوی نے تقریباً ایک سال کے عرصہ میں دوسری مرتبہ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا ، اس سے پہلے سینٹ الیکشن 2020 ء میں ووٹ کے استعمال کے طریقہ کار پر رائے مانگی تھی ، سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 ۔اے کی تشریح کے لئے صدارتی ریفرنس پر تین دو کی اکثریت سے فیصلہ دیا،ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کی ، بنچ کے ارکان جسٹس مظہر عالم خان میاں اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے بنچ کے دیگر تین ارکان سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 63۔اے اپنے آپ میں ایک مکمل کوڈ ہے جو پارلیمان کے کسی رکن کے انحراف اور اسکے بعد کے اقدام کے بارے میں جامع طریقہ کار بیان کرتا ہے، بنچ کے ان معزز ارکان نے اپنے اپنے فیصلے میں لکھا کہ انکی رائے میں آئین کی شق 63 اے کی مزید تشریح آئین کو نئے سرے سے لکھنے یا اس میں وہ کچھ پڑھنے کی کوشش ہو گی ،جس سے آئین کی دیگر شقیں بھی متاثر ہوں گی جو صدر نے اس ریفرنس کے ذریعے پوچھا تک نہیںہے ، اس لئے ایسا کرنا ہمارا مینڈٹ نہیں ، بنچ کے ان دونوں ارکان نے کہا کہ ہم صدر کی طرف سے پوچھے گئے سولات کا جواب منفی میں دیتے ہیں ، تاہم اگر پارلیمان چاہتی ہے تو وہ انحراف کرنیوالے ارکان کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے تین دو کا اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر بندیال ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر نے دیا، جس کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہو سکتا ، پارٹی سربراہ منحرف رکن کے متعلق ڈیکلیریشن دے یا نہ دے ووٹ شمار نہیں ہو سکتا ، منحرف رکن کے ووٹ کو نظر انداز کیا جائے ، اور پارلیمان انکی نااہلی کی مدت کیلئے قانون سازی کرسکتی ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ میں آئین کی شق 63 اے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے جسٹس منیب اختر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ووٹ بھی شمار نہ ہو اور نااہلی بھی ہو ، معزز چیف جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہ کرنا توہین ہوگی ، اس لئے ووٹ تو شمار ہوگا ، لیکن اس کے نتایج کیا ہوں گے یہ طے ہونا باقی ہے‘‘ ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے خواہش ظاہر کی کہ نا اہلی تا حیات ہونی چاہئے ، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئے تھے کہ کیا آپ فلور کراسنگ پر پابندی لگا کر پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن