کسی پر الزام لگانے نہیں بیٹھے: سپریم کورٹ م عمران کیخلاف تو ہین عدالت کی درخواست
اسلام آباد/ لاہور (خصوصی رپورٹر+ اپنے نامہ نگار سے) سپریم کورٹ نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ معاملہ پر تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر عمران خان کی تقریر کا ویڈیو کلپ چلایا گیا۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ بدھ کے روز عدالتی حکم کے بعد عمران خان نے کارکنوں کو اپنی تقریر میں پیغام جاری کیا، عدالتی حکم کے مطابق سیاسی لیڈرشپ سے رابطے کا کہا گیا تھا، عدالتی فیصلے کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک پر پہنچنے کا کہا، مظاہرین کے پاس غلیلیں بھی تھیں، مظاہرین نے درختوں کو آگ لگائی ،کروڑوں کی پراپرٹی کو نقصان پہنچایا گیا، ایسے واقعات کے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نقصانات ہوتے ہیں، جو یقین دہانی عدالت میں کرائی گئی تھی اس پر عمل نہیں کیا گیا، عدالت کے حکم کو نظر انداز کیا گیا، اگر عدالت میں کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہو تو کیا یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزری نہیں؟ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے پر ہم بعد میں آئیں گے، ممکن ہے عمران خان کو پیغام درست نہ پہنچا ہو، ڈی چوک پر جو لوگ آئے وہ بغیر قیادت کے تھے، مظاہرین نے آنسو گیس کے اثر کو زائل کرنے لیے درختوں کو آگ لگائی، عوام کو لیڈرشپ کنٹرول کر سکتی تھی جو وہاں موجود نہیں تھی، ساری صورتحال میں اصل معاملہ اختلافات ہیں، ہم اس سارے معاملے پر فیصلہ کریں گے، ہم سماعت کو دوسروں کیلیے مثال بنائیں گے، عدالتی حکم کا ایک حصہ حکومت اور تحریکِ انصاف کے درمیان مذاکرات سے متعلق تھا،عدالت نے فریقین کو مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کا حکم دیا تھا،عدالت نے واقعہ ہونے سے قبل شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا، عدالت نے ثالث کا کردار ادا کیا،اسکے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایکشن لیا،عدالت نے گزشتہ روز کے فیصلے میں فریقین میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی اور متوازن حکم جاری کیا ،عدالت ایگزیکٹیو کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتی،عدالت اسی حد تک محدود رہنا چاہتی ہے،اسی لیے عدالت نے لوگوں کے گھروں پر چھاپوں کو اجازت سے مشروط کیا،عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ پبلک پراپرٹی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور راستے بند نہ کیے جائیں، ہم عدالت میں کسی پر الزام لگانے کیلئے نہیں بیٹھے‘ سپریم کورٹ آئینی حقوق کے تحفظ کیلیے ہے،ہم آئین اوربنیادی حقوق کا تحفظ کرنے والے ہیں،آئین کے آرٹیکل 16 اور 17 کے تحت حقوق حاصل ہیں لیکن وہ لامحدود نہیں ہیں،ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین اور قانون پر عمل کرے،ایک ایسے وقت میں جب ٹمپر ہائی ہے تو ہم کیس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتے،جو کچھ ہوا قابل افسوس ہے ہم نے ایک قدم آگے بڑھ کر کوشش کی تھی کہ معاملات حل ہوسکیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ عدالت نے صرف آئینی حقو ق کی خلاف ورزی پر حکم جاری کیاتھا ، ممکن ہے عمران خان کے پاس پیغام درست نہ پہنچا ہو، اس بیان کے بعد کیاہوا یہ بتائیں ، علم میں آیا کہ شیلنگ ہوئی اور لوگ زخمی بھی ہوئے، عدالتی حکم میں فریقین کے درمیان توازن کی کوشش کی گئی تھی ، پی ٹی آئی ایک ماہ میں 33جلسے کرچکی ہے ، تمام جلسے پرامن تھے ، توقع ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی ذمہ داریوں کو بھی احساس ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے خلاف کارروائی نہ ہوئی توسب عدالتی یقین دہانی پر عمل نہیں کریں گے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جو کچھ کل ہوا وہ آج ختم ہوچکاہے، عدالت انتظامیہ کے اختیارات استعمال نہیں کرتی، عوام کے تحفظ کے لئے عدالت ہروقت دستیاب ہے، عوام کے تحفظ کے لئے ہی چھاپے مارنے سے روکاتھا، عدالت چھاپے مارنے کے خلاف اپنا حکم برقرار رکھے گی ۔ راولپنڈی سے اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس امجد رفیق نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے قبل تمام گرفتار افراد کی فوری رہائی کا حکم جاری کردیا دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے لانگ مارچ پر شیلنگ اور وکلاء کی گرفتاریوں کے خلاف کیس کی سماعت میں عدالت نے درخواستوں کو غیر مؤثر قرار دے کر نمٹا دیا عدالت کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کا حکم آ چکا ہے وکلاء کو کل رہا کر دیا گیا جسٹس عبدالعزیز نے درخواست پر سماعت کی۔