• news
  • image

چراغوں کی ایک رات 

آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر۔ فردا یعنی چھ دن بعد کا۔ ایک معقول ”عوامی“ قوالی کے بول کچھ یوں تھے کہ میرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا، کسی سے سن لیا ہو گا کہ دنیا چار دن کی ہے۔ یہ مقبول قوالی /25 کی رات اسلام آباد میں ہونے والے ”میلہ چراغاں“ کی تشنہ کامی پر یاد آئی۔ تشنہ کامی ان معنوں میں کہ میلہ رات کو سجا اور بھوریئے اڑج گیا۔ لوگ نہ جانے کیا کیا امیدیں لگا کر آئے تھے یا لائے گئے تھے کہ چلو 160 دن نہ سہی، 60 دن کی رونق لگے گی لیکن چیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد والا معاملہ ہو گیا۔ 
میلہ چراغاں اس دھج کا پہلے کسی اور شہر نے کہاں دیکھا ہو گا۔ رات ڈھلتے ہی اسلام آباد کے درخت قطار اندر قطار جل اٹھے، پرجوش انقلابیوں نے شاید امر بالمعروف کے یہ معنے نکالے کہ اور نہیں تو درختوں کو ہی آگ لگا دو۔ شیخ رشید نے جب یہ نعرہ مستانہ لگایا تھا کہ جلا دو آگ لگا دو تو غالباً ان کے پیش نظر درخت نہیں ہوں گے، کچھ اور مراد ہو گی۔ بہرحال، انقلابیوں کو جو اچھا لگا وہی کیا۔ اسلام آباد ویسے ہی شہر چراغاں ہے، اتنی روشنیاں کہ زھے نصیب درختوں والے چراغاں کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن چلئے ، لطیف بڑھتا ہے چراغاں جو چراغاں سے ملے۔ 
................
کچھ لوگ البتہ ضرور حیران تھے کہ درختوں کو اتنی آسانی سے کیسے آگ لگا دی ؟ کیا دیا سلائی کی تیلی جلائی، درخت کو دکھائی اور وہ جل اٹھا؟۔ اس کا جواب بعض اخبار نویسوں نے دیا ہے کہ انقلابیوں کے پاس بوتلیں تھیں۔ ان بوتلوں میں کیا تھا؟۔ گنڈاپور کا مشہور بلیک لیبل والا شہد؟۔ ان اخبار نویسوں کا جواب ہے کہ نہیں، وہ آتش سیال تھی جو چنگاری دکھانے سے شعلہ بلکہ الاﺅ بن جاتی ہے۔ 
خبر کی سرخی کچھ یوں ہونی چاہئے تھی کہ انقلاب کی آگ نے درختوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس لپیٹ میں ایک گاڑی اور میٹروبس کا ایک سٹیشن بھی آیا۔ انقلاب مزید پھیلتا لیکن اس دوران صبح ہو گئی اور قائد انقلاب ایک مختصر سے ہجوم کو مختصر سا خطاب سنا کر رخصت ہوئے اور انقلابی روئے گل سیر نہ دیم کہ ”خطاب“ آخرشد 
................
خاں صاحب نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ 25 مئی کو انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اسلام آباد آئے گی کہ پاکستان بلکہ خطے (بلکہ دنیا) کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔ ایک سمندر آئے گا جو سب کو بہا لے جائے گا۔ کپتان کی اس تان میں بہت سے خوش عقیدہ اینکر پرسنز، تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے بھی اپنی تان ملائی اور ایسی ملائی کہ سماں بندھ گیا۔ 
بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی۔ کم از کم 25 مئی کی تمام سابقہ تاریخوں میں اتنا بڑا ہجوم واقعی لکھی اسلام آباد نہیں آیا۔ یقین نہیں آتا تو پرانے اخبارات کی فائلیں کھول لیجئے یا نیٹ پر سال بہ سال 25 مئی کی تاریخیں کھنگال لیجئے، کسی بھی سال کی 25 مئی کو اتنا بڑا اجتماع اسلام آباد میں نہیں آیا۔ یعنی یوں کہیئے کہ 25 مئی کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا اجتماع تھا۔ 
................
اب وعدہ چھ دن کا ہے۔ یعنی تشنہ کام انقلابیوں کو نوید سنائی گئی ہے کہ بس چھ دن ہی کی تو بات ہے، ہم پھر اسلام آباد آئیں گے، میلہ چراغاں لگائیں گے ، دھرنا دیں گے۔ پیڑوں اور میٹرو سٹیشنوں کا انتم سنسکار کریں گے۔ ایک دن تو گزر گیا، باقی پانچ دن کا کاﺅنٹ ڈاﺅن آج سے شروع کر دیجئے۔ اس دوران حکومت بدل گئی تو کیا کہنے لیکن چھٹے دن بھی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ ہی ہوئے تو پھر....؟۔ پھر زہے قسمت اور کیا! 
................
آخر شب کے خطاب آخر میں خاں صاحب بہت کچھ فرما چکے اور خدا حافظ کہنے والے تھے کہ پاس کھڑے شیر شاہ سوری دوئم نے جھک کر ان کے کان میں سرگوشی کی کہ اب کچھ ”اسلامی ٹچ “ بھی دے دیجئے۔ جس پر خاں صاحب نے کہا، اور میں ایک وہ ہوں جو خود کو عاشقِ رسول کہتا ہوں“۔
اسلامی ٹچ یعنی اسلام کا تڑکا۔ بچنے نوں جی کردا کی طویل دھمال کے بعد یہ تڑکا لگانا بہت ضروری تھا۔ پتہ نہیں خاں صاحب کیوں بھول گئے لیکن بھلا ہو شیر شاہ سوری کا کہ یاد دلا دیا اور سوری کے یاد دلانے پر یاد آ جائے تو بھولے کو بھولا نہیں کہتے۔ اسے صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے والے محاورے کا ہم وزن سمجھئے۔ یہ سرگوشی مائک پر نشر ہو گئی، اسے فنّی خرابی پر محمول کیجئے۔ 
....................
حکومت اور اس کے حامی بغلیں بجانے کے انداز میں یہ کہہ رہے ہیں کہ خان نے دھرنا اس لئے اچانک منسوخ کر دیا کہ لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ 
یہ غلط بات ہے۔ لوگ اتنے بھی کم نہیں تھے۔ ایک صاحب نے انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ خان کا قافلہ جب پنجاب کی حدود میں داخل ہوا تو شرکا کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ پانچ چھ سو افراد ڈی چوک میں پہلے ہی سے موجود تھے انقلاب انگیز دھماچوکڑی میں مصروف تھے ، یعنی کل ملا کر ساڑھے بارہ ہزار۔ 
خدا لگتی کہیئے، کیا ساڑھے بارہ ہزار کوئی معمولی تعداد ہے؟۔ کیا اسے ”بہت کم لوگ“ کہا جا سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ آخر شب کو جو جلسہ تھا، اس میں البتہ یہ کتنی کچھ اور کم ہو گئی تھی لیکن یہ تعداد بھی کچھ اتنی زیادہ کم بھی نہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ میلہ چراغاں کیلئے تو چھ سو بھی کافی ہوتے ہیں۔ 
کوئی بات نہیں، پانچ دن انتظار کیجئے۔ اطلاع ہے کہ اس بار بارہ نہیں، تیرہ ہزار لانے کی کوشش کی جائے گی۔ 
................
ایک روز پہلے ایک ذرا سی اچھی خبر سنائی تھی، اب ایک بڑی سی بری خبر یہ آئی ہے کہ آئی ایم ایف نے قرضہ دینے سے انکار کر دیا ہے یعنی ایسی شرط لگا دی ہے کہ پوری کرنا مشکل ہے۔ 
حکومت اپنے قدم جما نہیں پائی ہے۔ آئی ایم ایف کے انکار سے یہ ادھر جمے قدم لڑ کھڑا بھی سکتے ہیں لیکن فکر کی بات اس لئے نہیں ہے کہ قرضہ ملے نہ ملے، عوام کی بری حالت بری ہی رہنی ہے۔ رہی حکومت تو وہ رہے نہ رہے، اب اس سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہم نے حکومت بنا صوبے اور ملک کو چلانے کا مختصر مدتی تجربہ کامیابی سے کر لیا ہے اس لئے اب حکومت کا رہنا نہ رہنا ایک غیر متعلق امر ہے۔ رہے نا اللہ کا! 
................
بھارتی حکومت نے کشمیری رہنما یٰسین ملک کو بلا کسی الزام کے عمر قید کی ظالمانہ سزا دی ”دھرنے“ کے شور میں یہ خبر گم ہو گئی۔ قوم اس پر رکھی ہے، اس رکھ کا ذکر خدا نے چاہا تو کل سہی! 

epaper

ای پیپر-دی نیشن