کشمیر جل رہا ہے
1947ء میں برصغیر کی تقسیم ہوئی اور دو نئے ملک پاکستان اور ہندوستان اس دنیا کے نقشے پر سامنے آئے۔ چونکہ اس وقت انگریز نہیں چاہتے تھے کہ یہ خطہ ان کے ہاتھ سے جائے مگر دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں اور تحریکِ آزادی میں شدت آنے کے بعد یہاں اپنا قبضہ قائم رکھنا بھی مشکل ہو گیاتھا اس لئے مجبوراً انگریزوں کو اقتدار منتقل کرنا پڑا۔ جہاں اقتدار کی منتقلی میں فوجی اور دیگر سازوسامان میں پاکستان کے ساتھ گیم کھیلی گئی اور بہت زیادہ سامان پر قبضہ کر لیا گیا یا بہت سارے اثاثے پاکستان کے حوالے کئے ہی نہیں گئے وہیں ریڈکلف جو کے منصفانہ حد بندی کے لئے مقرر کیا گیا تھا اس کی کانگریس کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بہت سارے مسلم اکثریتی علاقے جن میں جموں کشمیر شامل ہیں یہ بھارت کو دے دئیے گئے۔ اس سے پہلے کے نئی قائم ہونے والی پاکستانی ریاست کوئی اقدام اٹھاتی ، بھارتی افواج جموں کشمیر میں داخل ہو گئیں ۔ قائداعظم نے اس قبضہ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور پھر پاکستانی فوج اور قبائیلیوں نے مل کر بہت سارا علاقہ آزاد کروا لیا۔ چونکہ عوام مجاہدین کے ساتھ تھی اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتی جا رہی تھیں اس لئے بھارت دُم دبا کر اقوامِ متحدہ میں پہنچ گیا اور پھر جو اقوامِ متحدہ کی طرف سے امن اور سلامتی کا ایک ڈرامہ شروع ہوا وہ آج بھی جاری ہے۔مقبوضہ کشمیر کی وادی گزشتہ75 سالوں سے آگ میں جل رہی ہے ، ماؤں سے ان کے لال چھینے جا رہے ہیں، بچوں کو مارا جا رہا ہے ، عورتوںکی عصمت دری ہو رہی ہے اور اقوامِ عالم اس پر خاموش ہیں ۔
جب کسی قوم پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو پھر وہاں کے باسی آخر ایک دن صف آراء ہو ہی جاتے ہیں ۔ ایسے ہی مقبوضہ کشمیر کی تاریخ اور حال ایسے بیشمار شہیدوں اور قائدین سے بھرا .,h ہے کہ جنہوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے اپنا خون، مال اور اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔ ایسے ہی ایک بہادر کا نام یاسین ملک ہے کہ جو مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند تحریک کا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ یاسین ملک کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں اور جدوجہد آزادی اور اپنے حق مانگنے کے جرم کی پاداش میں گزشتہ کئی سالوں سے نئی دہلی کی بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل میں قید و بند جھیل رہے ہیں۔اسی جیل میں کئی اور آزادی کے متوالے بھی قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں جن میں کیا معلوم کون زندہ ہے اور کون نہیں۔ بہر حال یاسین ملک نے اپنی جوانی کشمیریوں کی آزادی اور حقوق کی خاطر قربان کر دی ۔ جہاں بھارتی افواج کشمیریوں پر آئے دن ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہیں ہیں تو وہیں اس آزادی کے متوالے کو حریت کے راہ سے ہٹانے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کر کے دیکھ لیا، جیل میں ہر ظلم و جبر کر کے دیکھ لیا اور جب کچھ نہ بن پڑا اور وہ اس مردِ آہن کے ہمت و حوصلہ کو توڑ نہیں سکے تو بالآخر اس مقبول حریت راہنما کو دہشت گرد قرار دے دیا اور ان کو پھنسانے اور سزادینے کے لئے گھٹیا طریقہ کار اپناتے ہوئے ایک 30سال پرانا کیس کھولا گیا جس میں 1990ء میں بھارتی فضائیہ کے چار اہلکار ہلاک ہوئے تھے ، اس کیس میں ان کا نام ڈال کر کیس کو دوبارہ چلایا گیا۔ جس میں انہیں بالآخر انہیں کل سزا سنا دی گئی ہے۔دہشت گردی کے ان جھوٹے مقدمات میں انہیں 2بار عمر قید اور5بار دس سال قید بامشقت سزاسنا دی ۔یہاں بھی اس بہادر حریت راہنما نے جرات کی ایک اور تاریخ رقم کی اور عدالت میں ان الزامات کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ میں یہاں ظلم و جبر کے پجاریوں سے بھیک نہیں مانگوں گا جو سزا دینی ہے دواور اس کے بعد جو سوالات یاسین ملک نے عدالت سے پوچھا وہ روز ِ قیامت تک بھارتی ایوانو ںمیں گونجتے رہے گے۔یاسین ملک نے عدالت سے پوچھا کہ اگر میں دہشت گرد ہوں تو مجھے بتایا جائے کہ کیوں مجھ سے 7بھارتی وزیراعظم مجھ سے ملنے کشمیر آتے رہے؟ کیوں وزیراعظم واجپائی نے مجھے پاسپورٹ جاری کیا؟ اور یہ کہ اگر میں دہشت گرد تھا تو کیوں میرے خلاف کبھی اس کیس میں کوئی چارج شیٹ فائل نہیں کی گئی؟کیوں دوسرے ممالک میں لیکچر دینے کے لئے بھیجتے رہے؟ جس پر عدالت کے پاس کوئی جواب نا تھا اور خاموشی سے ظلم کا ایک نیا باب رقم کر کے یاسین ملک کو سزا سنا دی گئی۔
اقوامِ عالم کو اب اس ظلم پر نوٹس لینا ہو گا اور مقبوضہ وادی میں جاری مظالم کو اب رکوانا ہوگا اور وہاں کے لوگوں کو جو کئی دہائیوں سے ظلم میں پِس رہے ہیں انہیں اب ان کے حقوق دینے ہوں گے۔ اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف مقبوضہ وادی میں شدید احتجاج ہو رہا ہے ۔ سرینگر میں یاسین ملک کی رہائش گاہ کے باہر بھارت کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ یاسین ملک کی اہلیہ ان کی سزا پر غم سے نڈھال ہیں اور طبیعت کی ناسازی کے باعث انہیں ہسپتال میں منتقل کرنا پڑا۔ آزاد کشمیر میں بھی اس فیصلے کے خلاف اور یاسین ملک کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور یہ آگ اب جلد رکنے والی نہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ جلد کشمیریوں کی تمام مشکلات سے نجات ملے اور وہ بھی آزادی سے اپنی زندگی گزار سکے۔