آگ اور پانی
فطرت انسانی کے نقائص میں سے ایک نقص یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ذاتی تسکین کی خاطرفطرت الہیٰ کے مظاہر کو ملیا میٹ اور تباہ و برباد کرنے کی پرواہ بھی نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ وقتی مفادات کی خاطر اپنے جنت جیسے مسکن کو جہنم میں بدل کر رکھ دیتا ہے اور پھر رونا دھونا شروع کر دیتا ہے اس کی زندہ مثال گذشتہ دنوں مارگلہ کی پہاڑیوں میں لگنے والی آگ ہے جہاں ایک ماڈل نے ٹک ٹاک پر وائرل ہونے کے لئے ویڈیو بنانے کی خاطر جنگل کے کچھ حصہ پر آگ لگائی جو پھیل گئی اور یوں یہ ماڈل قیمتی درختوں اور جنگلی حیات کے لئے وجہ قتل ٹھہری پاکستان جہاں پہلے ہی دنیا کے مقابلہ میں جنگلات کی شرح بہت کم ہے جو کہ 4.91%ہے یہ ایک واقعہ ہی کافی نہ تھا کہ ایک دوسرے واقعہ میں بلوچستان میں چند شر پسندو ںنے چلغوزے اور زیتوں کے جنگلات میں آگ لگا کر کثر پوری کر دی ان جنگلات میں آگ پر قابو پانے کے سلسلہ میں این ڈی ایم اے اور صوبائی حکومتوں کا روائتی نا لائقی کا پول ایک بار پھر کھل گیا پچھلے دنوں کسی ملک کے ایک لیڈر کا قول آنکھوں سے گذرا جس میں اس کا کہنا تھادنیا میں غریب نام کا کوئی ملک نہیں بس جہاں ریاستیں اپنے وسائل کوبھر پور استعمال کرنے اور سنبھالنے میں نا کام ہو جاتی ہیںوہی ملک غریب ملک کی حیثیت سے جاناجاتا ہے خواہ یہ وسائل آبی،معدنی یا پھر نباتاتی و جماداتی صورت میں ہی کیوں نہ ہوں ان دنوں پاکستان بالخصوص جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے صحرائی اور میدانی علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہیں اور پانی کی قلت کی بنا پر ان مذکورہ علاقوں میں ہزاروں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں یہاں تک کہ انسانی آبادیوں کے لئے بارشی پانیوں کو ذخیرہ کرنے والے تالاب جن سے انسان اور جانور سارا سال اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیںخشک ہو چکے اور چولستان اور تھر کے باسیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ چکی ہیں نہ صرف یہ بلکہ سندھ کے بہت سے زرخیزعلاقوں میں دریا اور نہریں خشک ہوچکی ہیں بہت سی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور یوں پاکستان کی سالانہ زرعی پیدوار میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے صحرائی علاقوں میں پانی کی قلت کا سبب بارشیں ہیں جو کہ قدرت کے اختیار میں ہے اور ان علاقوں میں پانی کی کمی کا دوش کسی کی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ باران رحمت ہی انسان اور چرند پرند کی پیاس بجھا سکتی ہے جبکہ کھیت کھلیانوں کو مقررہ سیزن میںمطلوبہ پانی نہ ملنے کا دوش یا ذمہ حکومتوں کو ہی دیا جا سکتا ہے جوکہ 75 سال گزرنے کے باوجود صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کاری کے لئے ایک منظم اور ٹھوس میکا نزم کیوں نہیں بنا سکیںحالیہ دنوں اس ضمن میں سندھ کے کسانوں نے مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کھیتوں کی بربادی کا ذمہ دار تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو قرار دیا جس نے این ایف سی ایوارڈکی تقسیم میں بد نیتی سے کام لیتے ہوئے اس نہج تک پہنچایا اور جبکہ اس کے مقابلہ میں صوبائی حکومت سندھ نے بھی عملی اقدام اٹھانے کی بجائے حسب روایت الزام تراشی سے کام لیااس سارے تناظر میں ایک سچے اور کھرے پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ مادروطن کو ابھی تک کوئی ایسا حکمران نہیں مل سکا جو کہ بنیادی طور پر مسائل کا خاتمہ کرے نہ کہ طفل تسلیاں دے مملکت پاکستان کا بھر پور اور دلکش جغرافیہ دنیا کے چند مما لک کے نصیب میں ہی ہے جہاں قدرت ہر رنگ میں جلوہ افروز ہے آبی جھرنے،قدرتی چشمے،جھلیں ،دریا ،سمندر ،میدانی زمین،صحرا،ریگزار ،پہاڑ ،چراہ گاہیںسب کچھ ہی تو ہے اگر کچھ نہیں ہے تو لیڈر شپ نہیں ہے ایسی قیادت کا فقدان جو پاکستان کے ضائع ہونے والے بیش قیمت قدرتی وسائل کو بھر پور استعمال کرتے ہوئے ملک اور اس کے شہریوں کو مفلوک الحالی سے نکا ل کر خوشحالی کے اوج کمال پر لے جائے گذشتہ دہائی میں سابقہ امریکہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے آبی وسائل کے ضیا ع پر تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی ایسی قوم ہے جو قدرت کے ملنے والے کروڑوں کیوسک پانی کا سیلاب کی صورت میں استقبال کرتی ہے اور آبادیوں کو تہس نہس کرنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کی بجائے بحفاٖظت سمندر برد کرتی ہے اور اللہ ماشا اللہ ابھی تک ہر حکومت اس ہٹ دھرم پالیسی پر جوں کی تو قائم ہے پانی کی صورت میں ملنے والے اس تحفہ خدا وندی کو سمندر میں پھینکنا تو گوارا کر لیتی ہے لیکن اس کو سال بھر کے لئے محفوظ کرنے کے لئے ٹس سے مس نہیں ہوتی اور اگر کچھ ہوتا ہے تو پانی کے نام پر سیاست ہوتی ہے اور یہی سیاست کالا باغ ڈیم جو کہ قصہ پارنیہ بن چکاسے شروع ہوئی اور ابھی تک غارت گری ڈھا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وسائل کی بے قدری کے نتیجہ میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی صورت میں قومی خواری اور مستقل غربت ہم پر مسلط ہے۔