اس بار تیاری نہیں تھی، دو بارہ قوت سے نکلیں گے، مذاکرات کیلئے تیار ہوں: عمران
پشاور (بیورو رپورٹ) سابق وزیراعظم و چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کے تحت آزادی مارچ ختم کرنے کی خبروں کی ترید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں، جون میں الیکشن کا اعلان ہوجائے تو باقی معاملات پر بھی بات ہوسکتی ہے نئے انتخابات کا اعلان نہیں ہوا تو پوری تیاری کے ساتھ دوبارہ نکلیں گے، یہ کہا جارہا تھا کہ ہم انتشار کرنے کے لئے جا رہے ہیں، کیا کوئی اپنے بچوں اور عورتوں کو لے انتشار کرنے جاتا ہے، اگر مجھے اپنی قوم کا خیال نہ ہوتا اور میں وہاں بیٹھ جاتا تو بہت خون خرابہ ہونا تھا، نفرتیں بڑھنی تھیں لیکن پولیس بھی ہماری ہے اس لیے ہم نے اپنے ملک کی خاطر فیصلہ کیا۔ پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کوئی نہ سمجھے کہ میری اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہوئی ہے، حکومت کو 6 روز دے رہا ہوں اگر انتخابات کا اعلان نہ ہوا تو بھرپور تیاری کے ساتھ جائیں گے کیونکہ اس بار ہماری تیاری نہیں تھی، مردان میں سب سے پہلے شہید کارکن کے گھر گیا، دوسرے کارکن فیصل عباس لاہور میں شہید ہوئے ہیں ان کے گھر پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنما گئے ہیں، ان دونوں کے لیے ایک ؍ایک کروڑ روپے پارٹی کی طرف سے اکٹھا کریں گے،یہ وہ لوگ ہیں جو ایک حقیقی آزادی کے جذبے سے نکلے تھے۔ ہم ان کے خاندان کو جتنا خراج تحسین پیش کریں اتنا کم ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی توہین یہ ہے کہ 30 سال جو لوگ اس ملک کے پیسے چوری کرکے اور پیسے باہر بھیج کر کھا رہے تھے، ہر قسم کے جرم کررہے تھے، ان لوگوں کو ملک پر مسلط کیا گیا، پہلے آپ سازش کرتے ہیں اس کے بعد چوروں کو بٹھا دیتے ہیں۔ اگر اس کے خلاف کوئی قوم پُرامن احتجاج نہیں کرسکتی تو پھر اس قوم کو زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے۔ پنجاب پولیس نے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں دیکھا، جس طرح وہ گھروں میں گھسے، ہم عدالت کے پاس گئے اس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا کہ پولیس کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور رکاوٹیں ہٹا دیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے مزید کہا کہ اس فیصلے کے بعد ہم سمجھے کہ رکاوٹیں ہٹا دی جائیں گی اور پولیس کی کارروائی نہیں ہوگی اس کے بعد جو ہوا ہم اس کی توقع نہیں کررہے ہیں، فیصل عباس کو تو پولیس کی جانب سے نیچے پھینکا گیا، اسی طرح جو کچھ بہنوں، بیٹیوں، وکیلوں سے کیا گیا۔ لاہور میں پولیس نے بس میں جو وکلا جارہے تھے انہیں جس طرح نکال نکال کر مارا، پوری قوم کے سامنے یہ ظلم ہوا۔پنجاب پولیس میں بہت اچھے اچھے افسران موجود ہیں لیکن موجودہ حکومت نے چن چن کر ایسے افسران کو تعینات کئے اور پھر ان سے ظلم کروایا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ سابق وفاقی وزیر عمر ایوب پولیس کے ساتھ بات کرنے گئے تھے، پولیس نے انہیں اتنی بے دردی سے مارا ہے، میں اب تک یہ سوچ رہا ہوں کہ کون سی پولیس اپنی عوام، شہریوں، بچوں، عورتوں، بیٹیوں کو اس طرح مارتی ہے،جس طرح عوام نکلے ہیں، ساری رات عوام سڑکوں پر کھڑی رہی۔ لوگوں نے بچوں کو اٹھایا ہوا تھا لہٰذا یہ پروپیگنڈا کہ ہم انتشار پھیلانے جارہے تھے، تو میں سوال پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی اپنے بہن، بچوں، بچیوں کو انتشار پھیلانے کے لیے آتا ہے۔ جب ڈی چوک پر بار بار شیلنگ کی گئی، سوشل میڈیا پر فوٹیجز موجود ہیں کہ کونسے دہشت گرد تھے جن پر شیلنگ کی گئی، کونسی ملک کی پولیس سے اس طرح کے کام کرواتے ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ مایوس ہوئے اور پوچھا کہ کیوں ڈی چوک پر جا کر بیٹھ گئے، میں یقین دلاتا ہوں کہ 126 دن دھرنے میں بیٹھا، میرے لیے مشکل نہیں تھا کہ جب تک یہ حکومت گھنٹے ٹیکتی میں وہاں پر بیٹھتا۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قوم غور سے سنے اگر مجھے ملک کی قوم کی فکر نہ ہوتی اور میرے بھی باہر پیسے اور جائیدادیں ہوتیں، میرے بیٹوںکے پاس بھی بڑی بڑی جائیدادیں ہوتیں تو شاید مجھے بھی اپنے ملک کی فکر نہ ہوتی، اس رات کو خون خرابہ ہونے لگا تھا ہمارے لوگ تیار ہوگئے تھے۔ ہمارے لوگ انتہائی غصے میں تھے جنہوں نے یہ تماشے دیکھے۔ انہوں نے مجرم اور گلو بٹ بٹھائے ہوئے تھے، اگر وہاں پر خون خرابہ ہوجاتا ملک میں انتشار بڑھنا تھا، یہ میرے ملک کا نقصان تھا، کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ ہماری کمزوری تھی اور نہ ہی کوئی ڈیل ہوئی ہے میں باتیں سن رہا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوئی ہے۔ میری کسی سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی، میں یہ واضح کردوں کہ اگر کسی کو خوش فہمی ہے کہ ہم اب ان سے آرام سے مذاکرات کریں گے، یا اس امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کرلیں گے، کوئی غلط فہمی میں نہ رہے میں اس کو جہاد سمجھتا ہوں، جب تک زندہ ہوں اس کے سامنے کھڑا رہوں گا۔مجھے صرف اپنے ملک کی فکر ہے لہٰذا یہ واضح کردوں کہ 6 دن دے رہے ہیں اس کے اندر اگر انہوں نے واضح طور پر اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا تو میں پھر سے نکلوں گا۔ اب ہم پوری تیاری کے ساتھ نکلیں گے کیونکہ جس طرح پولیس کا حملہ ہوا اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے جس میں ان سے سارے سوالات کیے ہیں کہ کیا ایک جمہوریت میں ہمارے پاس احتجاج کرنے کا حق ہے یا نہیں۔ یہ لوگ جو اسمبلیوں میں کروا رہے ہیں یہ غیر آئینی ہے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ووٹ کا حق چھین لیں صرف اس لیے کہ آپ کو ڈر ہے کہ آپ انتخابات ہار نہ جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ہم بھیڑ بکریوں کی طرح یہ چیزیں مان لیں گے؟ ہم ملک کو خود ہی بغاوت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اگر پُرامن احتجاج نہیں کرنے دیں گے تو ان کے پاس کتنے راستے رہ جائیں گے؟ اس لیے ہم نے خط لکھا ہے کہ پوزیشن کو واضح کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ساری قوم کو پتہ ہے کہ کون حق پرکون کھڑا ہے اور کون ظلم کررہا ہے؟ کون ملک کی حقیقی آزادی کے لیے کھڑا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ میں آکر پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا۔ میرا سوال ہے کہ کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایندھن کی قیمت میں اتنا بڑا اضافہ کیا گیا ہے؟ ان کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ بڑا مشکل فیصلہ تھا۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس آج دوپہر پشاور میں ہوگا۔