ناقابل تسخیر ایٹمی پاکستان
قوموں کی تاریخ میں بعض واقعات اقدامات ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں آنے والی نسلوں کے لیے قابل تقلید مثال اور مشعل راہ بن جاتے ہیں 28 مئی انیس سو اٹھانوے کا دن بھی پاکستان کی تاریخ کے روشن ایام میں شمار کیا جاتا ہے 28 مئی 1998ء کو پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی اور اقوام عالم کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا اس وقت کی حکومت پر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لئے سخت عالمی دباؤ موجود تھا ہر طرح کا لالچ موجود تھا مگر وزیراعظم نواز شریف ان کی حکومت ملکی سلامتی کے اداروں میڈیا اور عوامی حلقوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ یہ ایٹمی دھماکے ہونے چاہیے قدرت نے پاکستان کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے کا اعزاز میاں محمد نواز شریف کے حصے میں لکھا تھا لہذا انہوں نے ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کیا ان کے اس فیصلے کی بدولت آج ہم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے ہمیں یاد ہے کہ انیس سو چوہتر کو جب بھارت نے ہو کر ان میں پہلے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کی حکومت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو بھی ایٹمی طاقت بنانے کا عزم کیا ان کا ایک تاریخی فقرہ سب کو یاد ہے کہ ہم کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے اس کام کے لیے انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کا انتخاب کیا اور فرانس کے ساتھ ایٹمی ری پروسیسنگ پروگرام کا معاہدہ کیا مگر دبائو کی وجہ سے وہ معاہدہ بعدازاں منسوخ کر دیا گیا مگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔
فرانس کی جانب سے معاہدے کی منسوخی کے باوجود یہ پروگرام آگے بڑھتا رہا دنیا نے پاکستان کو اس وقت بھی بہت بڑی ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کی اس وقت بھی بہت کوشش کی کہا جاتا ہے کے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کی ایک بڑی وجہ ایٹمی پروگرام پر عملدرآمد روکنا تھا ان کے بعد جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان نے اس پروگرام کی آبیاری کی کہا جاتا ہے کہ پاکستان 1984 میں ایٹمی طاقت بن چکا تھا مگر عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان میں ایٹمی تجربات کو التوا میں رکھا اس دوران بھارت کی جارحیت بڑھتی جا رہی تھی اور اس نے تجربہ کرکے اگنی اور پرتھوی میزائل کا تجربہ کرکے پاکستان کی سالمیت کو خطرے میں ڈال کر خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا تھا پاکستان نے رزلٹ آف اس دوران میزائل ٹیکنالوجی میں بھرپور مہارت حاصل کی جس پر بے نظیر بھٹو کو بھی خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے بالآخر پاکستان نے 4 اپریل 1998ء کو پاکستان نے کرکے غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کر کے بھارت کی نیندیں حرام کردیں غوری میزائل کی رینج پندرہ سو کلومیٹر تھی اس میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد پورا بھارت پاکستان کے مزائیلوں کی رینج میں آگیا بھارت میں بی جے پی کی انتہا پسند حکومت کو یہ بات کسی صورت ایک آنکھ نہ بھائی اور ایک ماہ بعد ہی انیس سو اٹھانوے کو بھارت نے پوکھران میں ہیں تین ایٹمی دھماکے کئے جس پر دنیا کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا مگر بھارت نے دو روز بعد مزید دو دھماکے کر دئیے اب ایک بار پھر خطے میں طاقت کا توازن خراب ہو چکا تھا اور پاکستان کی سلامتی کو ایک بار پھر شدید خطرات لاحق تھے جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے۔
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف وسطی ایشیا کے دورے پر تھے۔ اطلاع ملتے ہی فوری طور پر پاکستان واپس آ گئے پاکستان بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر دنیا کے ردعمل کا باریک بینی سے مشاہدہ کر رہا تھا بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر امریکہ نے بھارت کے ساتھ تجارت معطل کرنے اسلحے کی فروخت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا برطانیہ یورپ آسٹریلیا اور دیگر ممالک کی جانب سے بھارت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی جبکہ جاپان میں بھارت کے خلاف باقاعدہ مظاہرے ہوئے مگر تین روز بعد ہی امریکہ کی بڑی کمپنیوں کی طرف سے اپنی حکومت پر لگائی جانے والی پابندیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جانے لگا جب کے ڈی اے ٹی اجلاس میں یہ روس نے بھارت سے کہا کہ اگر وہ چاہے تو مزید چار دھماکے کرلے اس صورتحال نے بھارت کا حوصلہ بڑھایا اور اور وہ پاکستان کو دھمکیاں دینے پر اتر آیا بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم شریر ہمسائے پر ایٹم بم گرا سکتے ہیں پاکستان کے ساتھ چین کو بھی دھمکانا شروع کر دیا۔یہ صورتحال ہر پاکستانی کے لئے قابل تشویش تھی حکومت ایٹمی دھماکوں کے لیے اندرونی و بیرونی مشاورت کر رہی تھی جبکہ دھماکے کرنے کے لیے پاکستانی عوام کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اس وقت روزنامہ نوائے وقت اور اس کے ایڈیٹر انچیف جناب مجید نظامی نے بھرپور عوامی ترجمانی کی انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ میاں صاحب اگر آپ ایٹمی دھماکے نہیں کریں گے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔
مجید نظامی کے اس فقرے کے پیچھے اوربے شمار واقعات اور شواہد تھے جس کی وجہ سے انہیں میاں نواز شریف کو یہ پیغام دینا پڑا امریکی صدر بل کلنٹن اور برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے وزیراعظم نواز شریف کو فون کرکے دھماکے نہ کرنے کے عوض بھاری مراعات امداد دینے کی پیشکش کی مگر وزیراعظم نواشریف نہ مانے اور ان کا جواب تھا کہ میں دھماکے نہ کرنے کا وعدہ نہیں کر سکتا امریکا اور اس کے حمایتیوں نے آخری حربے کے طور پر سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت آئندہ ایٹمی دھماکے کرنے والے ملک پر پابندیاں لگائی جاسکتی تھی مگر اس وقت بھی ہمارا دیرینہ دوست چین کام آیا اور اس نے برملا اعلان کیا کہ اگر کوئی ایسی قرارداد لائی گئی تو ہم ویٹو کریں گے۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور ڈاکٹر عبدالقدیر کی ملاقات میں آرمی چیف نے دھماکے کرنے کا کہا تو ڈاکٹر عبدالقدیر کا جواب تھا کہ ہم تیار ہیں پاکستان نے سترہ روز ہر قسم کے دباؤ ہر طرح کے لالچ اور دھمکیوں کا سامنا کیا مگر پاکستان کی حکومت ادارے اور عوام کے ارادوں میں کوئی کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی بالآخر بلوچستان کے پہاڑی سلسلے میں چاغی کے پہاڑ ایٹمی دھماکوں سے لرز اٹھے۔ ان دھماکوں نے نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن برقرار کردیا بلکہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا پاکستان کا ایٹمی طاقت بنا ناصرف پاکستانی کے لیے بلکہ دنیا کے ہر مسلمان کے لیے قابل فخر بن گیا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازشیں ہوتی رہتی ہیں مگر پاکستان کی ہر حکومت مسلح افواج اور عوام اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔