جب چاغی کو تاریخی حیثیت ملی!
پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان، جس کا علاقہ چاغی اور ’’چاغی‘‘ کے سنگلاخ پہاڑ۔ اُس وقت تاریخ رقم ہو گئی جب چاغی کے پہاڑوں میں پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو حیران و ششدر کر دیا۔ یہ 28مئی 1998ء کا ایک تاریخی اور یادگار دن تھا جب پاکستانی انجینئرز اور سائنسدانوں نے کمال کر دکھایا۔ ایک ایسی تاریخ لکھ دی جو رہتی دنیا تک دنیائے تاریخ کا ایک سنہری باب بن کر ہمیشہ زندہ رہے گی۔
بھارت اس سے قبل تین ایٹمی دھماکے کر کے ایٹم بم رکھنے والے ملکوں کی صف میں شامل ہو چکا تھا۔ لہٰذا پاکستان کے لیے بھی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اُس کے ایٹمی دھماکوں کا اُسی سرعت سے جواب دیتا۔ عسکری اور سیاسی قیادت سرجوڑ کر بیٹھ گئی۔ ایٹمی سائنسدانوں کو بھی وزیراعظم ہائوس بلا لیا گیا۔ جہاں عسکری اور سیاسی قیادت نے اُن سے صلاح مشورے کئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر اشفاق خان نے دوران میٹنگ جب عسکری اور سیاسی قیادت کو یہ نوید سنائی کہ نیوکلیئر کی افزائش پر کام مکمل ہے اور اب صرف ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے تو طے پایا کہ اب کوئی وقت ضائع کئے بغیر ہمیں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دے دینا چاہیے۔ نیوکلیئر ٹیسٹنگ کے لیے جگہ کا چنائو کیا جانے لگا۔ یہ ’’ٹیسٹنگ‘‘ کہاں ہونی چاہیے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ’’چاغی‘‘ کا انتخاب کیا گیا، جو بلوچستان کا دُور افتادہ پہاڑی سلسلہ تھا۔ سائنسدانوں اور انجینئرز نے دورے کے بعد اس علاقے کو نیوکلیئر ٹیسٹنگ کے لیے موزوں ترین قرار دیا۔ بعدازاں اتفاق رائے سے دھماکوں کے لیے 28مئی کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔
یہ تیاریاں اتنی خاموشی اور اتنے خفیہ طریقے سے ہو رہی تھیں کہ وزیراعظم کی کابینہ تک کو علم نہ تھا کہ28مئی کو کیا ہونے والا ہے۔ عسکری حلقوں میں گنتی کے صرف چند جرنیل ہی اس امر سے آگاہ تھے۔ قوم، مقامی، حتیٰ کہ بین الاقوامی میڈیا بھی ان تمام حقائق سے بے خبر تھا۔ 28مئی کا سورج ابھی پوری طرح طلوع بھی نہیں ہوا تھا۔ فضا میں گرمی کی سخت تمازت تھی ۔ انجینئرز اور سائنسدان پہلے ہی سے ’’چاغی‘‘ میں موجود تھے۔ نیوکلیئر سے متعلقہ تمام ضروری سامان ایک دن پہلے ہی چاغی پہنچا دیا گیا تھا۔ دھماکوں کے لیے ایک بڑی پہاڑی سرنگ تیار کی گئی تھی۔ جیسے ہی پو پھٹی اور دن کی روشنی پھیلنے لگی۔ ’’چاغی‘‘ میں غیر معمولی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ اسلام آباد کی جانب سے آنے والے فوجی اور سول ہیلی کاپٹر یکے بعد دیگرے چاغی کے مخصوص ہیلی پیڈ پر اترنے لگے۔ اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تشریف لائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے ٹیسٹ کے لیے اُن سے ایٹمی دھماکے کی اجازت مانگی۔ اِس سے قبل ایٹم بم کو ایک لمبی پہاڑی سرنگ میں منتقل کیا جا چکا تھا۔ جیسے ہی وزیراعظم سے اجازت ملی، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے انجینئرز کو مخصوص اشارہ دیا جس پر انہوں نے ایٹم بم کا بٹن دبا دیا۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ایٹم بم نے سرنگ اور اردگرد کے تمام پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے۔ اتنا ارتعاش پیدا ہوا کہ زمین اور پہاڑوں نے ایسا ارتعاش پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دھماکے کی شدت اور ایٹمی بارود کے اثرات سے چاغی کے تمام پہاڑوں کا رنگ پیلا پڑ گیا۔تاہم سرنگ میں دھماکے ٹیسٹنگ کے باعث چاغی کے نواحی علاقے ایٹمی بارود کے اثرات سے محفوظ رہے۔ اس کامیاب دھماکے کے بعد یکے بعد دیگرے چار مزید دھماکے کیے گئے۔ جس کے بعد چاغی کی فضا نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کے پُرشگاف نعروں سے گونجنے لگی۔ ان نعروں میں سیاسی اور عسکری قیادت بھی شامل ہو گئی۔ سب کے چہرے اتنی بڑی کامیابی کے بعد خوشی سے چمک اور دمک رہے تھے۔ جیسے ہی چاغی سے ایٹمی دھماکوں کی خبر ملک بھر میںپہنچی، لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے۔ ہر طرف خوشی اور جشن کا سماں نظر آنے لگا۔ اللہ اکبر کی گونج ہر گلی کوچے میں سنائی دینے لگی۔
بھارت میں تو موت کی سی خاموشی چھا گئی ،بھارتی سرکار کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ پاکستان نے یہ سب کچھ اتنے خفیہ طریقے اور خاموشی سے کیا کہ سب کی حیرانی اور پریشانی کی سمجھ آتی تھی۔
خدا کا شکر کہ ایٹم بم کی تکمیل سے پاکستان کا دفاع مکمل اور ناقابل تسخیر ہوا۔ بھارت کو بھی سمجھ آ گئی کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا اب اتنا آسان نہیں۔ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ مقام پر فوج کی حفاظت میں ہیں۔ کئی بار دنیا کی طرف سے سوال اٹھا۔ امریکہ نے بھی کئی بار شکوک و شبہات کا اظہارکیا کہ شاید ہمارے ایٹمی اثاثوں تک دہشت گردوں کی رسائی ہو سکتی ہے لیکن حکومت پاکستان خصوصاً عسکری قیادت نے دنیا کو باور کرایا کہ ایٹمی اثاثوں تک کسی کی بھی رسائی ممکن نہیں کیونکہ تمام ایٹمی اثاثے فوج کی تحویل اور حفاظت میں ہیں۔
28مئی جب بھی آتا ہے ہمیں ایک بہت ہی یادگار اور تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے۔ یہ ہمارے سائنسدانوں کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے تاریخ اور قوم کبھی نہیں بھلا سکے گی۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ جو کارنامہ سرانجام دیا وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا ۔ٹھیک تین دن بعد 28مئی ہماری بہت سی یادیں تازہ کرے گا۔ ہمیں تجدیدِ عہد کرنی چاہیے کہ ہم ملک کے امن، ترقی، بقا اور سلامتی کے لیے کسی سے بھی کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہمیں ایٹم بم دے کر ہماری سلامتی کو ناقابل تسخیر بنانے والے ہمارے ہیرو ہیں۔ قوم ہمیشہ اُن کی مقروض رہے گی۔ ہم اپنے ان تمام قومی ہیروز کو 28مئی کے اس خصوصی موقع پر سلام پیش کرتے ہیں۔