• news

ایٹمی دھماکہ مبارک ، لیکن ، معاشی دھماکہ ؟ 

معزز قارئین ! آج 28 مئی ہے ، ’’یوم تکبیر ‘‘ کی 24 ویں سالگرہ۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت فروری 1974ء میں پہلی بار اور 11 مئی 1998ء میں دوسری بار ایٹمی تجربہ کر کے ایٹمی قوت بن چکا تھا ۔ پاکستان نے 1976ء میں اپنے پُر امن ایٹمی پروگرام کا آغاز کردِیا تھا ۔ وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دَور تھا ۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبداُلقدیر خان اُس پروگرام کے خالق اور انچارج تھے ۔
 1985ء میں صدر جنرل ضیاء اُلحق کے دَور میں پاکستان نے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کر لی تھی لیکن ایٹمی تجربہ 28 مئی 1998ء کو وزیراعظم نواز شریف کے دَور میںپاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع ’’ چاغی ‘‘ کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے کیا، اُس دِن کو’’ یوم تکبیر‘‘ کہا جاتا ہے ۔
’’ گھاس کھائیے ! ‘ ‘
فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے دَور میں "The Guardian" کے دولتِ مشترکہ کے خصوصی نمائندےMr. Peter Kolkay" " کی اِس رپورٹ کو دُنیا بھر کے اخبارات میں خاص اہمیت دِی گئی تھی جس، میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’’ اگر عوام کو گھاس بھی کھانا پڑی تو، بھی ہم ( اہل پاکستان) ایٹم بم ضرور بنائیں گے!‘‘۔ اِس پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے ایک نظم لکھی تھی جس کے صرف چار شعر شامل کر رہا ہُوں …
سب ہوگیا ہے ، زیر و زَبر ، گھاس کھائیے!
اربابِ ذوق و علم و ہُنر، ، گھاس کھائیے!
…O…
روٹی نہیں تو، بھوک کا ،کیسے علاج ہو؟
کھائیں گے، کیسے لعل و گُہر ، گھاس کھائیے!
…O…
جنگل میں ، یوں تو اور جڑی بوٹیاں بھی ہیں!
اہل وطن کے ساتھ ، مگر ، گھاس کھائیے!
…O…
اِک بار گھاس کھانے سے ، گر بھوک نہ مٹے!
اے یارِ غار ! بار دِگر ، گھاس کھائیے!
…O…
’’ یاد ہائے جنابِ مجید نظامی!‘‘ 
28 مئی 2013ء کو’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ لاہور میں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کی مشترکہ تقریب میں (اُن دِنوں) وزیراعظم میاں نواز شریف کی موجودگی میں اپنے صدارتی خطاب میں ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی حاضرین کو بتا رہے تھے کہ ’’ وزیراعظم نواز شریف کو عالمی قوّتوں کی طرف سے ،ایٹمی دھماکا کرنے کی صْورت میں دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور نہ کرنے کی صُورت میں ہزاروں مِلین ڈالرز کی رشوت پیش کی جا رہی تھی۔ 
جنابِ مجید نظامی نے کہا کہ ’’ میاںنواز شریف مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اکابرین سے دھماکاکرنے یا نہ کرنے پر مشورے کر رہے تھے۔ قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے اجلاس میں اُنہوں نے رائے طلب کی تو اُس موقع پر مَیں نے کہا کہ’’ وزیرِاعظم صاحب! آپ ایٹمی دھماکا ضرور کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکا کر دے گی، مَیں آپ کا دھماکہ کر دوںگا!‘‘
 معزز قارئین !۔ پھر کیا ہُوا؟۔ چند دِن بعد چاغی کے پہاڑ سے وزیرِاعظم نواز شریف نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا۔’’ مجید نظامی صاحب !۔ مَیں نے ایٹمی دھماکا کر کے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔ مبارک ہو! ‘‘۔
’’ معاشی دھماکا !‘‘
معزز قارئین ! میاں نواز شریف نے حاضرین ( اور خاص طور پر ) جنابِ مجید نظامی سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ ’ اب میری حکومت معاشی دھماکہ ضرور کرے گی ‘ ‘۔ لیکن اْس کے ساتھ ہی اپنی تقریر میں میاں صاحب نے کہا کہ’’ پاکستان اب تبدیل ہو گا اور عوام کی زندگی میں تبدیلی بھی آئے گی ہر گھر میں روشنیوں کے چراغ جلیں گے لیکن لوگوں کو صبر اور انتظار کرنا ہو گا ۔ بجلی کا بحرا ن‘ لوڈ شیڈنگ کا عذاب ایک دو دِن میں توختم نہیں ہوگا ظاہر ہے کہ پاکستان کا ایٹمی دھماکا ، کئی سال کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔ معاشی دھماکا کرنے کے لئے وقت تو درکار ہو گا۔چند دِنوں میں تو معاشی دھماکا نہیں کِیا جا سکتا ؟ ‘‘ ۔
’’ غُربت اور اندھیرا ! ‘ ‘
معزز قارئین ! ۔ اِس پر 30 مئی 2013ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ دُور غُربت بھی ہو ، اندھیرا بھی !‘‘ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ معاشی دھماکا۔اِس لئے ضروری ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان کا وجود سخت خطرے میں ہے۔ 
کسی دَور میں دوسری بڑی سپر پاور سوویت یونین بھی تو ’’ایٹمی قوت ‘‘ تھی ۔ اُس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ’’ اُس کی ریاستوں کی بیکریوں کے باہر ہاتھوں میں "Roubles" لئے خریداروںکی لمبی لمبی قطاریں تھیں لیکن بیکریوں میں اشیائے خورو نوش نہیں تھیں اور پاکستان میں تو غربت کی لکیر سے نیچے 60 فی صد عوام کے پاس تو قوّتِ خرید ہی نہیں ہے ؟۔ ہمارے یہاں توغْربت کی وجہ سے لوگوں کی۔’’ قوّتِ خرید ‘‘ ہی ختم ہوتی جا رہی ہے ! ‘‘۔
مَیں نے اپنے کالم میں اپنے دوست ‘‘ شاعرِ سیاست‘‘ کے یہ دو شعر بھی شامل کئے تھے کہ … 
’’روٹی، کپڑا بھی ہو، بسیرا بھی!
 ٹْوٹے، دہشت گروں کا، گھیرا بھی!
… O…
 دونوں ہی ہیں، ہماری ترجِیحات!
 دْور غْربت بھی ہو، اندھیرا بھی!‘‘
… O …
’’جنابِ بھٹو اور اُن کے جانشین !‘‘ 

معزز قارئین ! پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کا ’’ لارا‘‘ (بہانہ، ٹال مٹول/ جھوٹا وعدہ ) لگایا تھا۔ دو بار وزیراعظم جنابِ بھٹو کی ’’دُختر مشرق‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ’’ دامادِ بھٹو ‘‘ صدر آصف زرداری نے روٹی،کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا نہیں کِیا۔ اُن تینوں قائدین کے دَور میں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کی طرف مُنہ کر کے بھوکے ننگے عوام ہر بار یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ …
روٹی، کپڑا بھی دے ، مکان ،بھی دے!
اور ہمیں ، جان کی امان ،بھی دے !
…O…
جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے چار راہنما اصولوں میں سے ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ ’’ سوشلزم ہماری معیشت ہے !‘‘ لیکن، پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری صاحب یہ کہا کرتے تھے کہ ’’ اسلامی مساوات ہماری معیشت ہے!‘‘۔ 
صدر آصف زرداری کے بعد صدر ممنون حسین اور صدر عارف اُلرحمن علوی اور تیسری بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے والے میاں نواز اور دوسرے وزرائے اعظم ، جناب عمران خان اور اب میاں شہباز شریف کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے اور نہ ہیں کہ’’ وہ پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام کے لئے معاشی دھماکا کرسکیں؟ ۔ 

ای پیپر-دی نیشن