چھ مہینوں میں تبدیلی کے دعویدار کا نیا نعرہ اور عمر اکمل کا یوم پیدائش!!!!!
خبر یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرکٹ کلبز کی سکروٹنی کے لیے اکاؤنٹنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔ بورڈ دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ فیصلہ شفافیت کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس ندیم خان کہتے ہیں "پی سی بی کی کوشش ہے اس عمل کو چار ماہ میں مکمل کیا جائے تاکہ ایک مضبوط کرکٹ اور انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکے"۔ اکاؤنٹنگ فرم کی خدمات سے استفادہ اپنے لوگوں پر عدم اعتماد ہے۔ ساتھ ہی یہ کسی اور پر بیپناہ اعتماد بھی ہے۔ کرکٹ کے حلقوں میں اس حوالے سے دلچسپ تبصرے ہو رہے ہیں۔
ایک ایسا کام جو کرکٹ بورڈ خود کر سکتا ہے اسے باہر سے کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسی چیزیں جن کا تعلق خالصتاً کھیل سے ہے اگر کرکٹ بورڈ ان کاموں کو بھی خود نہیں کر سکتا تو پھر بھاری تنخواہیں لینے والے کس مرض کی دوا ہیں۔ جب سارے کلبز کا ڈیٹا پی سی بی کے پاس موجود ہے، کون سا کلب کہاں ہے، کس کلب کا نیٹ کہاں لگتا ہے، کس کے نیٹ پر کتنے کرکٹرز کھیلتے ہیں اگر کوئی کرکٹ سے جڑا ہوا ہے تو یہ سب چیزیں اس کے لیے معمولی حیثیت رکھتی ہیں۔ جنہیں پاکستان کے سب سے ماہر منتظمین بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے نہ ان سے جونیئر کرکٹ سنبھالی جاتی ہے، نہ یہ سکروٹنی کروا سکتے ہیں، نہ کوئی ڈھنگ کا کیمپ لگا سکتے ہیں، نہ کلب کرکٹ کروا سکتے ہیں۔ کیا یہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی کام کر سکتے ہیں۔ کلبز کی سکروٹنی سے پہلے تو ان افسران کی سکروٹنی کی ضرورت ہے۔ جب بورڈ چار ماہ میں سکروٹنی کا عمل مکمل کرنے کی کوشش کا پیغام دے رہا ہے تو اس سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ اس سال بھی صوبائی ایسوسی ایشنز کے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ دو ہزار انیس میں ایک نیا آئین نافذ کیا گیا تھا اور یہ سارے خود ساختہ ماہر آج تک اس آئین کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بورڈ میں الفاظ کے ماہر انہیں بہترین بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہاں ایک ایسا شعبہ بھی جس کے سربراہ تو فخریہ کہتے ہیں کہ انہیں غلط بیانی کے لیے ہی تو رکھا گیا ہے۔ وہ دور کو پاس، اندھیرے کو روشنی دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن افسران کی کارکردگی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے اور حقیقت عوام تک پہنچ ہی جاتی ہے۔
کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس ندیم خان نے جب عہدہ سنبھالا تو اعلان کیا تھا کہ چھ ماہ میں تبدیلی آئے گی۔ چھ کا پہاڑہ بھی پڑھیں تو چھ ماہ کئی مرتبہ ضرب کھا چکے لیکن تبدیلی کی تلاش ابھی جاری ہے شاید عہدہ سنبھالتے ہوئے ندیم خان یہ کہنا بھول گئے ہوں گے کہ پہلے تبدیلی ڈھونڈی جائی گی جب بورڈ اسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گا پھر اسے نافذ کر دیا جائے گا۔ پہلے ندیم خان احسان مانی اور وسیم خان کی قیادت میں تبدیلی ڈھونڈتے رہے اب انہوں نے یہ کام رمیز راجہ کی قیادت میں شروع کیا ہے۔ احسان مانی کے تباہ کن دور کے بعد اب انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ تبدیلی کی تلاش کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان کی کامیابی کا امکان کم ہے۔ کیونکہ گرم موسم میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر یا پھر سرد موسم میں نیشنل ہائی پرفارمنس سے نکل کر چند قدم چلتے ہوئے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر "کوفی" پی کر تو تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ ایسی تبدیلی جس سے بہتری آئے وہ تو ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس نہیں لا سکے لیکن تباہ کن تبدیلی میں وہ برابر کے حصے دار ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر کئی تباہ کن منصوبے ہیں جو انہیں ناکام منتظم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ کرکٹ سے سب کچھ حاصل کرنے والے چند کرکٹرز نے گذشتہ چند برسوں میں پاکستان کرکٹ کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ چھ مہینوں میں تبدیلی کا سہانا خواب دکھانے والے بورڈ میں برسوں گذارنے کے بعد اب سکروٹنی کے منصوبے کو چار ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ وہ جو تمام تر اختیارات کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں لا سکے تو ان اس کے دعوے پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ کاش کہ بیانات جاری کرنے کے علاوہ بھی کوئی کام کرتے تو آج اتنے برے حالات نہ ہوتے۔
مڈل آرڈر بیٹر عمر اکمل نے بتیسویں سالگرہ منائی۔ عمومی طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے اپنے کرکٹرز کی سالگرہ کے موقع پر نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے لیکن رمیز راجہ کے چیئرمین بننے کے بعد اس حوالے سے پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ اس معاملے میں عمر اکمل سے پہلے بھی کئی کرکٹرز کو نظر انداز کیا گیا۔ سلیم ملک اور محمد عامر کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ انٹر نیشنل کرکٹ کونسل نے سالگرہ کے موقع پر عمر اکمل کو یاد رکھا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس حوالے سے اپنی نئی اور غیر اعلانیہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مڈل آرڈر بیٹر کو نظر انداز کیا۔ اگر سلیم ملک کو نظر انداز کیا گیا ہے تو کیا بورڈ سے ان کی تصاویر بھی اتروا دی جائیں گی، کیا محمد عامر کی 2009 ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ، دو ہزار سترہ کی چیمپیئنز ٹرافی اور دیگر اہم کامیابیوں کی تصاویر ہٹائی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر ایسے اقدامات کا کیا فائدہ ہے۔ جب کوئی کھلاڑی کسی ناخوشگوار واقعے کے بعد قومی یا بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کھیل سکتا ہے تو پھر سالگرہ کی مبارکباد میں کیا حرج ہے۔ اب تین جون کو بورڈ چیئرمین کا امتحان ہے اگر وہ اس وقت تک چیئرمین رہے تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ تین جون کو بھی کسی کھلاڑی کو نظر انداز کریں گے۔