• news
  • image

پانی کے لیے جنگ، اسرائیل اور بیانات کا یوٹیلیٹی سٹور!!!!!

امام صحافت جناب مجید نظامی مرحوم کے بعد پاکستان کے آبی ذخائر یا مستقبل میں پاکستان کو اس حوالے سے درپیش کے حوالے سے کسی کو بات کرتے نہیں سنا۔ بہرحال یہ نہایت اہم مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ ہمارے اہم لوگوں کے پاس اس مسئلے پر کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ اس حوالے سے آخری اچھی خبر کب پڑھی ہو۔ پانی جیسی بنیادی ضرورت کی قلت سے کیسے بچنا ہے، اسے کیسے ذخیرہ کرنا ہے اور اس حوالے سے بہتر حکمت عملی کیسے ترتیب دینی ہے ہمارے ہاں اس حوالے سے معمولی کام ہوتا ہے۔ ویسے ان دنوں پاکستان اور بھارت کے مابین بات چیت ہو رہی ہے۔ پاکستان کا پانچ رکنی وفد انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ کی قیادت میں آبی تنازعات پر بات چیت کیلئے بھارت پہنچ گیا ہے۔ وفد میں وزارتِ خارجہ، محکمہ آبپاشی، محکمہ موسمیات اور نیسپاک کے نمائندیشامل ہیں۔ دو روزہ مذاکرات آج سے نئی دلی میں شروع ہوں گے۔ پاکستان کو بھارت کے دریائے سندھ اور دریائے چناب کے منصوبوں پر اعتراض ہے۔ پاکستان کو پانی کی ممکنہ کمی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے مدنظر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے ساتھ بھی بامقصد اور بامعنی مذاکرات ہونے چاہئیں۔ ہمارے حکمرانوں کا عمومی رویہ اہم معاملات بھی غیر سنجیدہ ہوتا ہے۔ پانی کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس حوالے طویل المدتی منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے توانائی کے متبادل ذرائع پر کام نہیں کیا اور آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ملک میں اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومتوں کو کن مشکلات کا سامنا رہتا ہے یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہمیں ان حالات سے سیکھنا چاہیے۔ حکمرانوں کے پاس اگر وقت ہو تو اس حوالے سے ضرور سوچیں۔ یہ صرف حکمرانوں کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ تمام سیاستدانوں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے قومی سطح پر بحث کی بھی ضرورت ہے۔
ویسے ملک میں مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ مہینوں اس اہم موضوع پر لکھتے لکھتے حکومت بدل گئی پی ٹی آئی کی جگہ آج درجن بھر جماعتوں کی حکومت ہے لیکن مہنگائی کسی کے قابو میں نہیں ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو بھی سب سے زیادہ نقصان اشیاء خوردونوش اور ادویات کی مسلسل بڑھتی قیمتوں نے پہنچایا تھا۔ پی ٹی آئی وزراء  نے توجہ نہیں دی اور آج ان کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار مہنگائی ہے۔ اگر بہتر حکمت عملی کے تحت کام کیا جاتا تو آج حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ بہرحال اب وقت فذر چک ہے آج درجن بھر سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں کا امتحان ہے۔ گوکہ ان کے قابو میں کچھ نہیں آ رہا لیکن اس مہنگائی کے دور میں اگر کچھ سستا ہے بلکہ بہت سستا ہے تو وہ سیاست دانوں کے بیانات ہیں۔ صبح دوپہر شام جیسے اشیاء  خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی خبر ملتی ہے اس کے ساتھ ہی درجن بھر سیاست دانوں کے بیانات بھی نظر سے گذرتے ہیں۔ حکمران طبقہ جس نے مہنگائی کو قابو کرنا ہے، چیزیں سستی کرنی ہیں انہوں نے چیزیں سستی کرنے کے بجائے بیانات سستا کر کے عام آدمی کو بیانات کے تجزیوں اور اس حوالے سے ہر وقت کے مباحثے میں الجھا کر توجہ تقسیم کر دی ہے۔ گوکہ یہ حکمت کارگر ثابت نہیں ہو سکتی لیکن بدقسمتی ہے کہ ماضی کی حکومت اور موجودہ حکومت اس حوالے سے ایک ہی پیج پر دکھائی دیتی ہے۔ جو آج اپوزیشن میں ہیں چند ماہ پہلے تک انہیں بھی مہنگائی نظر نہیں آتی آج والے فوری انکار نہیں کر سکتے لیکن بیانات ان کے بھی بدل رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جو بھی حکومت کر رہا ہو اس کے لیے عام آدمی کے مسائل سب سے اہم ہوں۔ جتنا وقت سیاستدان بیانات جاری اور ان کا جواب دینے میں ضائع کرتے ہیں اس کا کچھ حصہ بھی اصل کاموں پر لگائیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسے مسائل تو نہیں جو کسی نے ہم پر تھوپ دیے ہیں یہ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اسے حل بھی ہم نے ہی کرنا ہے۔ کاش کہ حکمران طبقہ اس طرف توجہ دے۔ نئی حکومت مہنگائی کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ قومی ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران ستائیس اشیاء  ضروریہ مہنگی جب کہ پانچ کی قیمتوں میں کمی اور انیس اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ملک میں مہنگائی کی شرح 16.97 فیصد ہوگئی ہے۔
گذشتہ کئی روز سے دورہ اسرائیل کے حوالے سے متضاد خبریں گردش کر رہی تھیں۔ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ  نے عالمی اقتصادی فورم میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتے ان سے دو وفود نے ملاقات کی جن میں امریکا میں مقیم دو پاکستانی بھی شامل تھے۔ پاکستانی وفد سے ان کی ملاقات بے حد خوش آئند رہی۔ گزشتہ روز ترجمان دفترخارجہ پاکستان کے کسی وفد کے دورہ اسرائیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ  زیربحث دورے کا اہتمام غیر ملکی این جی او نے کیا تھا جو پاکستان میں مقیم نہیں۔  مسئلہ فلسطین پر پاکستان کامؤقف واضح اور غیر مبہم ہے، پاکستان فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کی مستقل حمایت کرتا ہے۔ فلسطین پرہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس صورتحال میں ہمارے فیصلہ سازوں بالخصوص سیاست دانوں کو نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایسے مسائل میں الجھایا جاتا ہے کہ وہ ہر وقت تردید جاری کرتا رہے۔ یقیناً ایسے واقعات سے اندرونی پر طور پر انتشار پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے واضح پالیسی کے باوجود درجہ حرارت یا ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے دائیں بائیں سے ایسی حرکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسرائیلی صدر کی خوشیاں بتا رہی ہیں کہ وہ پاکستان میں انتشار پھیلانے میں کامیاب ہوا ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ میں اس حوالے سے ناصرف وضاحت پیش کرنی چاہیے بلکہ اس سارے واقعے کی تفصیل عوام کے سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل کو بھرپور جواب دینا چاہیے۔
ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام عروج پر ہے اور اس عدم استحکام کے دور میں عوام آڈیو لیکس سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک آڈیو سامنے آ رہی ہے۔ ایسی چیزوں کو کم ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمیشہ اس کا عذر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس میں کہیں نہ کہیں حقیقت ضرور ہوتی ہے۔ بہرحال پہلے ایک آڈیو مبینہ طور آصف علی زرداری کی ایک بزنس مین کے ساتھ آئی پھر محترمہ مریم نواز کی آڈیو سامنے آئی ہے۔ اب دنوں جماعتوں کے ووٹرز ایک دوسرے کو طعنے دے رہے ہوں گے جب تک اس حوالے سے بحث میں کمی آئے گی ایسی ہی کوئی چیز سامنے آئے گی یوں عوام کی توجہ اصل مسائل پر نہیں جائے گی۔ ایسے ہی مسائل پر اس کالم میں پہلے بھی لکھا گیا ہے۔ ان آڈیوز میں دلچسپی لینے والوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ انہیں ایسی آڈیوز سننے سے کیا حاصل ہو گا، کیا پٹرول سستا ملنا شروع ہو جائے گا، کیا آٹا سستا ہو جائے گا، کیا گھی تیل مفت ملیں گے اگر نہیں تو اپنے کام پر توجہ دیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن