سی پیک دوبارہ فعال ہوگا، وزیراعظم کی چینی سرمایہ کاروں سے گفتگو
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کہتے ہیں "پْرامن احتجاج کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ رولنگ دے، ورنہ اس بار ہم تیاری کے ساتھ جائیں گے۔ سپریم کورٹ سے رولنگ لے رہے ہیں کہ پر امن احتجاج کا حق ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ کو کہہ رہا ہوں کہ آپ ہمیں رولنگ دیں، ہمیں بتائیں کہ کس بنیاد پر ہمیں روکا گیا اور انتشار پھیلایا گیا۔ ہمیں بتائیں کہ کیا سپریم کورٹ اس طرح کے غیر جمہوری عمل کی اجازت دے گی۔ اگر سپریم کورٹ تحفظ دیتی ہے تو ہماری حکمت عملی الگ ہوگی اور اگر ہمیں تحفظ نہیں ملتا تو پھر ہماری دوسری حکمت عملی ہو گی"۔
حکومت ختم ہونے کے بعد سے عمران خان احتجاجی موڈ میں ہیں وہ ہر وقت احتجاج کی سوچ کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ جانا ان کا حق ہے یہ حق ہر شہری کو حاصل ہے۔ دوسری طرف آئین کی روشنی میں ملکی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے احتجاج کرنے والوں اور احتجاج کو مسترد کرنے والوں کے حقوق کو دیکھتے ہوئے فیصلہ سپریم کورٹ کا اختیار ہے۔ آئین یقینی طور پر پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن ساتھ ہی احتجاج میں شریک نہ ہونے والوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ مختلف معاملات میں اہم سیاسی رہنما عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سب اپنے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے عدلیہ کی تعریف کرتے ہیں تو کبھی عدلیہ ان کے نشانے پر ہوتی ہے۔ گذرے چند ہفتوں میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات کی وجہ سے اعلی عدلیہ پر بہت بوجھ آیا ہے۔ ملک میں ممکنہ آئینی بحران کے خدشے کو دیکھتے ہوئے بھی عدلیہ کے بروقت اقدامات سے اصلاح کا پہلو نکلا اس کے بعد بھی حالات ایسے ہیں کہ ہر روز کچھ نہ کچھ ضرور ہو رہا ہوتا ہے۔ ان حالات میں جہاں ہر طرف سیاسی نفرت اور جھوٹ کا بازار گرم ہے، نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بیان بازی نے ماحول کو بے پناہ آلودہ کر دیا ہے، سیاست دان ایک دوسرے بارے ایک ہی دن میں کئی بار ایسے ایسے سخت اور نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ گفتگو سن کر تکلیف ہوتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قوم کی رہنمائی کرنی ہے، یہ ہمارے رہبر ہیں، سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر بات کا جواب بڑھا چڑھا کر دینا فرض سمجھتے ہیں۔ الفاظ کی نفرت اس حد تک پھیل چکی ہے کہ گھر گھر لڑائی ہے۔ یہ حالات یقینی طور پر اچھے نہیں ہیں۔ سیاست دان رکنے والے نہیں ہیں، شاید انہیں کوئی کہتا بھی ہو لیکن وہ کسی کے کہنے سننے میں کب ہیں۔ سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دھن میں اس حد تک مگن ہیں کہ اچھے برے کی تمیز ہی ختم ہو چکی ہے۔ ان حالات اعلیٰ عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، عدلیہ کچھ ایسا کرے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک اکٹھا کرے کچھ ایسا سیاسی ضابطہ اخلاق ترتیب دے کہ بدزبانی پر بھی کوئی سزا مقرر ہو۔ نفرت کا بازار گرم ہے اور یہ نفرت کسی بڑی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ جب سارے بھاگے بھاگے عدلیہ کی طرف جاتے ہیں پھر عدلیہ کو بھی ایک قدم آگے بڑھ کر غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی طرف بڑھنا چاہیے۔ یہ قدم ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے اٹھانا پڑے گا آج نہیں تو کل اس طرف بات ضرور آئے گی جتنا جلد ہم اس طرف بڑھیں گے اتنا ہی نقصان کم ہو گا۔ سیاست دانوں کی عدم برداشت کو دیکھتے ہوئے عدلیہ سب سے بڑی امید ہے۔
خبر ہے کہ وزیر اعظم میاں شہبازشریف سے چینی سرمایہ کار کمپنیوں کے نمائندوں نے ملاقات میں گذشتہ چار برسوں میں گیم چینجر سمجھے جانے والے منصوبے کو نظر انداز کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے سی پیک دوبارہ فعال ہونے کے یقین کا اظہار بھی کیا ہے۔چینی کمپنیوں کے نمائندوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ ناصرف ہمیں نظر انداز کیا گیا بلکہ اس دوران مسائل بھی حل نہیں ہوتے تھے۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں چینی سرمایہ کار بہت خوش نہیں تھے، ان کے کام میں ناصرف رکاوٹیں کھڑی کی گئیں بلکہ چینی سرمایہ کاروں کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہا۔ انہیں وہ ماحول اور حالات نہیں ملے کہ وہ مطمئن ہوتے اور منصوبوں پر مکمل یکسوئی کے ساتھ کام کرتے۔ اب وزیراعظم میاں شہباز شریف اس حوالے سے متحرک ہوئے ہیں تو یہ خوش آئند ہے۔ مسلم لیگ نون کے پاس وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اہم منصوبوں پر کسی رکاوٹ کے بغیر کام آگے بڑھائے۔ چین ہمارا سب سے بہترین دوست ہے اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ملکی معیشت کو درپیش مسائل دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت سے زیادہ بہتر فیصلوں کی توقع ہے۔ ملک کو معاشی سرگرمیوں کی ضرورت ہے اور بالخصوص چین کے ساتھ مضبوط معاشی تعلقات پاکستان کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ چائنہ کے ساتھ مضبوط تعلقات سے صرف معاشی سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہو گا بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کے تبادلے سے مسائل پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
صدر پاکستان عارف علوی نے بھی لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد آئینی ذمہ داریاں نبھانا شروع کر دی ہیں۔ گورنر پنجاب کی سمری بھی منظور کر لی ہے جبکہ الیکشن کمشن کے حوالے سے بھی اپنا آئینی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ناکام لانگ مارچ کے بعد اب حالات متحدہ حکومت کے حق میں بہتر ہو رہے ہیں۔ صدر پاکستان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگیاں ایک طرف رکھ کر ریاست کے ساتھ وابستگی کو یقینی بنائیں۔ ان کی جماعت کی حکومت نہیں رہی لیکن یہ ملک تو ان کا اپنا ہے اس قوم نے پہلے ہی بہت وقت ضائع کیا ہے سیاسی اختلافات میں ملک و قوم کا قیمتی وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے پی ٹی آئی چیئرمین کی کال پر فورس استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ یہ طرز عمل نامناسب ہے اور اگر صوبے کا وزیر اعلی یہ زبان استعمال کرے گا تو شہری اس سے کیا سبق سیکھیں گے۔ ایسے جذباتی بیانات سے صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔ ایک ذمہ دار شخص کو ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ یہ سیاسی مخالفت ہے اسے دشمنی یا نفرت میں بدلنے کا نقصان صرف اور صرف ملک کو ہی ہونا ہے۔ سیاسی جماعتیں آمنے سامنے ہیں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو کسی کا ترجمان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ادارے حرکت میں آتے ہیں تو پھر آپشنز کم ہو جاتے ہیں۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی جنگ نہ بنائیں۔