ذرا سی لاپرواہی یا بڑا سا جرم
چند سال پہلے کی بات ہے۔ بیرون شہر سے آئے ایک دوست کے ہمراہ موٹر بائیک پر شاہراہ قائداعظم فیصل چوک پر رُکے ہوئے تھے۔ سگنل گرین ہوا تو ہم نے موٹر بائیک آگے بڑھائی۔ اتنے میں ایک آٹو رکشہ تیزی سے سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آیا اور ہماری بائیک کے ہینڈل سے ٹکراتے ہوئے آگے بڑھتا چلا گیا۔ رکشہ ٹکرانے سے موٹرسائیکل کا توازن برقرار نہ رہ سکا اور ہم دونوں سڑک پر گر گئے۔ لوگ جلدی سے آگے بڑھے۔ کچھ ہم نے ہمت کی ،ایک نوجوان نے ہماری بائیک سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔ لوگ کہہ رہے تھے شکر کریں بچت ہو گئی۔ شکر کا پہلو تو ہمیشہ رہتا ہے۔ ہم بھی کپڑے جھاڑ کر اپنا اور بائیک کا جائزہ لینے لگے۔ ہمارے گھٹنوں اور بازوؤں پر رگڑیں لگیں۔ موٹربائیک کو بھی کچھ ’’چوٹیں‘‘ لگی تھیں۔ بظاہر ہم ٹھیک ٹھاک اُٹھ کر دوبارہ بائیک پر سوار ہوکر روانہ ہو گئے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سڑک سے لگی رگڑوں نے ہمیں رگڑا دینا شروع کر دیا۔ انجکشن لگوانے کے باوجود زخموں پر جلن شروع ہو گئی۔ آرام آنے میں کئی دن لگے۔ گھٹنوں اور بازو سے قمیض اور شلوار پھٹ گئی تھیں تو نیا سوٹ بھی ضائع ہو گیا۔ بظاہر یہ ایک نہایت معمولی واقعہ تھا۔ رکشے والے کی ذرا سی لاپرواہی یا غلطی ۔ جس کی سزا ہم نے کئی دن جھیلی۔ اگر رکشے والا اپنی طرف کا اشارہ کھلنے کا انتظار کر لیتا تو ایسا نہ ہوتا۔ حال ہی میں ایک روز بائیک پر دفتر جاتے ہوئے ایک موٹرسائیکل سوار بائیں طرف سے آیا اور بائیک کو سائیڈ مارتا ہوا سیدھا آگے نکل گیا۔ بائیک کو سنبھالنے کی بڑی کوشش کی لیکن بائیں طرف سڑک پر موٹرسائیکل سمیت گھسیٹتا چلا گیا۔ جسم کا بایاں حصہ خاصا متاثر ہوا۔ ہیلمٹ پہنا ہوا تھا سر بچ گیا۔ کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے موٹربائیک کو بھی کافی نقصان پہنچا مگر شکر ہے سٹارٹ ہو گئی۔ سائیڈ مارنے والے کو پتہ تو چل گیا ہوگا کہ اس کی لاپرواہی کا کیا نتیجہ نکلا ہے لیکن اس نے رکنا یا مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ لاپرواہی اسی کو تو کہتے ہیں۔ دفتر جانے کے بجائے گھر واپس آیا۔ انجکشن لگوایا اور بازو پر جراح سے پٹی کروا لی۔ لیکن ’’درد رُکتا نہیں ایک پل بھی‘‘یا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا معاملہ تھا۔ ایکسرے کروائے تو پتہ چلا کہ کہنی کی ہڈی میں فریکچر ہے۔ جس کا علاج چھ ہفتے تک ہاتھ سے کندھے تک پلستر یا جراح کی پٹیاں۔ سخت گرمی میں موٹا پلستر، اندر پسینہ اور کھجلی پٹیوں میں لپٹے اور گلے میں لٹکے بازو کی وجہ سے انسان کس طرح جزوی مفلوج ہو جاتا ہے۔ ہاتھ منہ دھونے، واش روم جانے، کپڑے بدلنے، کھانے پینے، چھوٹے چھوٹے کام کرنے سے انسان کیسا معذور ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس تکلیف کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو ایسی کسی تکلیف سے گزرا ہو۔ لیکن اتنے عرصے کی تکلیف، کرب اور الجھن کسی کی ذرا سی لاپرواہی سے ۔
اس تکلیف کی شدت جتنی بھی ہو چند ہفتے یا دو تین ماہ کی ہے لیکن اس شدید کرب کا کیا کیجئے جو ساری زندگی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا جوزندوں کو بار بار مارتا ہے۔ معروف شاعرہ ایم زیڈ کنول کا بھانجا اور ان کی ڈاکٹر بہن کا جواں سال اکلوتا بیٹا جو ڈاکٹر بننے کے تمام مراحل عبور کر کے خاندان کے لئے فخر اور خوشیوں کا استعارا بننے والا تھا۔ ڈیفنس کے علاقے میں ایک بدمست و بدبخت کارسوار کی تیز رفتاری کا نشانہ بن گیا۔ جب اس کی والدہ ایک ہسپتال میں مریضوں کی مسیحائی کر رہی تھیں ان کا اکلوتا بیٹا لوگوں کی بے حسی اور ڈاکٹروں کی غفلت کا شکار ہو رہا تھا۔ اس کرب کو کوئی گداز دل والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔ تفتیش کی صورتحال یہ کہ سی سی فوٹیجز ضائع کر دی گئیں اور پولیس کا وہی روایتی طریقہ اور رویہ۔ ابھی دل پر پتھر رکھ کر سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ مصری شاہ کا ایک اٹھارہ سالہ نوجوان موٹربائیک پر گھر سے شوارما لینے نکلا لیکن گلے پر دھاتی ڈور پھرنے اور شہ رگ کٹنے سے سڑک پر تڑپ تڑپ کر جان دے گیا۔ وہ آخری سانسیں لے رہاتھا اور لوگ اردگرد کھڑے ویڈیو بنا رہے تھے۔ ایمبولینس کا انتظار کر رہے تھے۔ ان میں سے کوئی آگے بڑھ اس کی کٹی شہ رگ پر کوئی کپڑا رکھ کر خون نکلنے سے روک دیتاتو شاید اس نوجوان کی زندگی اور ماں باپ کی امیدیں دم توڑنے سے بچ جاتیں۔ وہ کیسا سفاک پتنگ باز ہوگا جس کو علم ہوگا کہ اس کے اس شغل سے کسی کی جان جاسکتی ہے لیکن اس نے خونی کھیل کھلا۔ شہ رگ کٹی بیٹے کی لاش دیکھ کر اس کے گھر والوں کی زندگی کیسے کٹے گی۔ کسی کے منہ سے شوارمے کا نام سن کر اس کی ماں کس طرح تڑپا کرے گی۔ اس بارے سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
کاش ہم ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم اس دین کے پیروکار ہیں جس کی تعلیمات ہیں:
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
اور … جس نے ناحق کسی انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری بنی نوع انسان کو قتل کیا۔