عمران کا بیان خطرناک ، سینٹ میں سخت ردعمل : الفاظ واپس لیں ،ارکان
اسلام آباد (وقائع نگار) سینٹ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے متنازع بیان پر حکومتی اراکین نے سخت ردعمل دیتے ہوئے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جمعرات کو ایوانِ بالا کا اجلاس چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی صدارت ہوا جس میں قائد ایوان اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں، پاکستان کے سب سے بڑے دفتر میں رہنے والے شخص کے منہ سے یہ بات سازش کے سوا نہیں نکل سکتی۔ وزیر قانون نے کہا کہ یہ پاکستان کی سالمیت کا معاملہ ہے، اس پر ہم نے تحریک التوا جمع کرائی ہے اور سینیٹرز اس معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں، سابق وزیر اعظم نے جو گفتگو کا انداز اختیار کر رکھا ہے وہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ اقتدار جانے کے بعد وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں، سب سے پہلے پاکستان ہے سیاست اس کے بعد آتی ہے، سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ میرا شعبہ ڈاکٹری کا ہے اس لیے بتا سکتا ہوں کہ عمران خان کو بائی پولر ڈس آرڈر ہے، نفسیات میں ایسے مریض کو دماغ پر بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے ہیں۔ آصف کرمانی کی تقریر پر اپوزیشن نے ایوان میں سخت احتجاج کیا۔ سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں نے کبھی اپنی زندگی میں ایسا نہیں سنا حالانکہ سال 58 میں جب مشرقی اور مغربی پاکستان ساتھ تھا، اس وقت کے صدر ایوب خان نے ایک جنبش قلم سے تمام رہنماؤں کو ایبڈو (نااہل) کردیا لیکن اس وقت بھی کسی ایک رہنما نے ملک کے خلاف بات نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو ہم نے کوئی بات نہیں کی۔ شہید بینظیر بھٹو اپنے بچوں کو لے کر بغیر پروٹوکول اپنے شوہر سے ملنے جیل جاتی تھیں اور انہوں نے عدلیہ اور منتخب اداروں کا احترام کیا، اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بھی انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف بات کرنا نااہلی تک پہنچا سکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عمران خان اپنا بیان واپس لیں‘ مجھے اور نواز شریف کو نااہل کیا گیا لیکن حکومت نے 5 سال پورے کئے۔ ہماری خواہش تھی کہ آپ بھی 5 سال پورے کرتے لیکن تحریک عدم اعتماد ایک مکمل جمہوری طریقہ کار ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ بحیثیت ایک پاکستانی کے عمران خان کو ملک 3 حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اور آپ کے دشمن بھی تو یہی کہتے ہوں گے کہ فوج تباہ ہوجائے گی، یہ کہنا کہ ملک دیوالیہ ہوجائے گا اور ایٹمی اثاثے نہیں رہیں گے، ہم اس بیان کی مذمت کرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم اور ایک سیاسی جماعت کے چیئرمین کی جانب سے ایسا بیان آنا ملک کے لیے خطرناک ہے۔ ملک سے محب وطن ہونا ایک رہنما ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سنیٹر عرفان صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں وزرائے اعظم کو گھسیٹ کر نکالا گیا کسی نے ملک کے خلاف بات نہیں کی۔ ایک انتہائی مقبول رہنما پھانسی چڑھا دیا گیا، اس وقت کسی نے نہیں کہا کہ فوج تباہ ہوجائے گی، پاکستان کے ٹکڑے ہوجائیں گے بلکہ صبر و تحمل سے سیاست کا سفر جاری رکھا اور جب وہ حکومت ختم ہوئی تو بھٹو کی بیٹی ہی وزیراعظم بنی۔ جب بینظیر بھٹو سرعام قتل ہوئیں تو پیپلز پارٹی نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا یا تین ٹکڑے ہوجائے گا اور اگر کوئی نعرہ لگا تو وہ آصف زرداری کا تھا کہ 'پاکستان کھپے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی عزت و آبرو پر کوئی آنچ نہیں آئی وہ بڑے آرام سے ایک آئینی راستے کے ذریعے نکلے اور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر بنی گالہ چلے گئے۔ یہاں وزیراعظم کو گھسیٹ کر نکالا گیا، ہتھکڑیاں لگائی گئیں، کالے شیشوں والی وین میں بٹھایا گیا اور 3 مہینوں تک معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں ہیں لیکن انہوں نے نہیں کہا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا یا فوج تباہ ہوجائے گی۔ سنیٹر عرفان صدیقی نے کہا افواج پاکستان نے 4 سال کے عرصے میں سبق سیکھ لیا ہے اور اگر وہ اب اپنے کردار میں واپس چلے گئے ہیں تو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا ہے کہ امریکی خوشنودی میں حکمران آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ سینٹ اجلاس میں قائد حزب اختلاف سینیٹر شہزاد وسیم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ملک بڑے خطرات سے دوچار ہوا اور ہمیں اپنی ماضی سے سیکھنا ہو گا۔ اکثریت کو سائفر کے آنے بعد اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا اور عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ عمران خان کا بیان ہے پاک فوج ان کی جان سے زیادہ ضروری ہے۔