ای سی ایل پر اعتراضات ختم کرکے ترامیم کو ایک ہفتے میں قانونی شکل دی جائے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے تفتیشی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت عظمیٰ نے حکومت کو ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے نیب اور ایف آئی اے میں زیر تفتیش تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ سافٹ کاپی کی صورت میں جمع کرانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ کرپشن سنگین جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی کرپشن کا ہوتا ہے، نیب ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتا، نیب کے مطابق اربوں روپے کرپشن کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے، اگر نیب یا کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی کے خلاف تحقیقات کر رہا ہو تو حکومت کو چاہئے اس کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے پہلے ادارے سے مشاورت کرے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان کی عدلیہ 128ویں نمبر پر ہے، پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی، کسی بے گناہ کو جیل میں نہیں رہنا چاہیے، غلط فیصلے اعلی عدلیہ سے تبدیل ہو جاتے ہیں، نوے فیصد فیصلے اعلی عدلیہ میں برقرار رہتے ہیں، عدالتی فیصلوں کے بعد لوگ اللہ کے نام پر معاف کر دیتے ہیں، دیکھنا ہوگا سنگین جرائم والوں کو معافی ملنی چاہیے ہے یا نہیں، حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہیں ورنہ حکم جاری کرینگے، ممکن ہے عدالتی حکم مشکلات پیدا کردے، ایگزیکٹو اختیارات میں فی الحال مداخلت نہیں کرنا چاہتے، ایک ہفتے میں مناسب اقدامات کرلیں، اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایمانداری، منصفانہ اور شفافیت کو مد نظر رکھا جائے۔ چیف جسٹس نے ایک موقع پر پوچھا کہ بتایا جائے کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے کون کہتا ہے، کس سے پوچھا جاتا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر بتایا کہ ہمارے پاس ایک خط آتا ہے کہ متعلقہ شخص سے تفتیش جاری ہے اس لئے نام ای سی ایل میں ڈال دیں، ضابطہ اخلاق کے تحت ذاتی نوعیت کا کیس وزیر کے پاس نہیں جاتا، بیرون ملک سفر اور آزادانہ نقل وحرکت ہر شہری کا آئینی حق ہے، کسی فرد کے خلاف نیب میں تحقیقات یا کسی ایجنسی کے تحقیقات کے سبب نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاسکتا، فاقی کابینہ نے ای سی ایل رولز ترمیم میں لکھا کہ انکا اطلاق ماضی سے ہوگا، ماضی سے ترمیم کے اطلاق کا مقصد مخصوص افراد کیلئے نہیں تھا، ای سی ایل رولز میں ترمیم وفاقی حکومت کی صوابدید ہے، وفاقی کابینہ میں شامل افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی وجہ آزادانہ حکومتی امور کی انجام دہی ہے، کسی قانون میں نہیں لکھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے سبب نیب سے مشاورت ضروری ہے، اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ میری رائے میں تو ای سی ایل ہونی ہی نہیں چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیس میں ذاتی رائے پر نہیں جائیں گے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ ہماری تشویش ہے کہ آزادانہ تحقیقات ہوں اور شفاف ٹرائل ہو، ریکارڈ گم ہو جائے گواہوں کو خاموش کرا دیا جائے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر قرار دیا کہ اگر کوئی زبردستی کیس بنوانے کی بات کرے تو عدالت کو آگاہ کیا جائے، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے ایک موقع پر عدالت سے استدعا کی کہ نیب کو مقدمات کا جائزہ لینے کیلئے وقت دیا جائے، عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر قرار دیا کہ ایف آئی اے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر کے علاوہ دیگر افسران کو تبدیل کر سکتا ہے۔ بعد ازاں معاملہ کی سماعت بروز منگل 14 جون تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔