• news

معاشی استحکام کے لیے عوام نہیں اشرافیہ کو قربانی دینی ہوگی

پٹرول کی قیمت میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دو اضافوں نے عوام کے مسائل کئی گنا بڑھا دیے ہیں۔ حالیہ دونوں اضافوں کے بعد پٹرول کی قیمت تقریباً ڈیڑھ سو روپے سے بڑھ کر 210  روپے فی لٹرپر جا پہنچی ہے۔ یہ صورتحال عوام کے لیے ناقابلِ بیان مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے دعوے تو بہت کیے جارہے ہیں لیکن تاحال ایسا کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا جس سے یہ ثابت ہو کہ حکومت واقعی عوام دوست پالیسیاں اپنا رہی ہے۔ سابق حکومت کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ سخت شرائط پر کیے جانے والے معاہدے کی وجہ سے موجودہ حکومت کو پریشانی کا سامنا تو ہے لیکن یہی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ ان حالات میں عوام کے لیے سہولت کیسے پیدا کرتی ہے۔ عوام نے سابقہ حکومت کے جانے یا نئی حکومت کے آنے سے جو امیدیں لگائی تھیں ابھی تک وہ پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔
ْپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جمعہ کو سینیٹ اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف کی طرف سے شدید احتجاج ہوا۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف نے پٹرول بم کو معاشی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کا گھیرائو کرکے شدید احتجاج کرنے کے بعد ایوان سے علامتی واک آئوٹ کیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مہنگائی بم گرا کے حکومت عوا م کو ریاست سے متنفرکررہی ہے۔ اجلاس کے دوران پٹرول بم نامنظور اور امپورٹڈ حکومت نامنطور کے نعرے بھی لگائے گئے۔ پی ٹی آئی کے ارکانِ سینیٹ کا کہنا تھا کہ اگر آج ہم ہوتے تو روس سے معاہدہ کرتے اور سستا تیل لیتے۔ ہمارے دور میں آئل ریفائنری کا فی لیٹر مارجن 6روپے تھا انھوں نے 60روپے کردیا۔ ہم ان کا مارجن کم کرتے ، پٹرول کی قیمت بڑھنے پر اب سارے ان کو ڈنڈے ماریں گے۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ ان سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہورہی ہے، یہ حکومت استعفیٰ دے اور گھر جائے اور نئے الیکشن کرائے۔
سینیٹ میں پٹرول کی قیمتوں کے اضافے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا، کہتے ہیں کہ میں کپڑے بیج دوں گا، اگر ایسی حالت رہی تو قوم خود آپ کے کپڑے نوچے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کی آزادی گروی رکھ دی گئی ہے۔ اگر آپ کو پتہ تھا کہ سابقہ حکومت نے بیٹرا غرق کیا ہے تو کیوں حکومت میں آئے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے مزید کہا کہ جج، وزیر اور پارلیمنٹرین اپنی سرکاری گاڑی استعمال نہ کریں۔ پی ٹی آئی کے ارکان کے احتجاج پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قائدِ ایوان اعظم نذیر تارڑ اوروزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ایوان کو جلسہ گاہ نہ بنایا جائے۔ زبان ہماری بھی چل سکتی ہے اور دامن آپ کا بھی صاف نہیں۔ سب نے مل کر ملک کو ٹھیک کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی غلامی سے راتوں رات نکلنا ممکن نہیں۔ معیشت پر سیاست نہ کی جائے۔
ادھر، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دل پر پتھر رکھ کر مجبوراً بڑھانا پڑیں۔ 8 کروڑ غریب افراد کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کیلئے مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اشرافیہ کو بھی اب قربانی دینا ہو گی۔ شروعات اپنے آپ سے کروں گا۔ جمعہ کو گوادر میں ایسٹ بے ایکسپریس وے منصوبہ کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سابق حکمرانوں نے حکومت ہاتھ سے نکلتے اور عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتے دیکھی تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دیں اور ہمارے لیے ایک جال پھینکا کہ ہم اس میں پھنس جائیں۔ ہم نے ایک ہفتہ پوری کوشش کی کہ عوام پر بوجھ نہ ڈالنا پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے قرضوں سے ملک چلایا۔ 98 فیصد ضروریات ہم درآمد کرکے پوری کرتے ہیں۔ گیس کے ذخائر بھی کم ہو رہے ہیں۔ اضافہ مجبوراً منتقل کرنا پڑا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ 8 کروڑ غریب افراد کو 2 ہزار روپے کی سبسڈی بھی دے رہے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور عوامی مسائل کے پیش نظر وزیراعظم نے کابینہ ڈویژن، متعلقہ وزارتوں اور اداروں کو ہدایت کی ہے کہ کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی جائے، اس ضمن میں وفاقی وزرائ، سرکاری افسران اور بڑے پیمانے پر تیل کی مد میں فنڈز خرچ کرنے والے اداروں کے فنڈز پر کٹوتی لگائی جائے۔ وزیراعظم نے یہ بھی ہدایت کی کہ ایسے اداروں کی نشاندہی کی جائے جہاں فنڈز کی کٹوتی کرنے پر اس کی کارکردگی پر بہت زیادہ اثرات مرتب نہ ہوں ایسے اداروں کے فنڈز میں سو فیصد کٹوتی بھی کی جائے گی جبکہ سرکاری افسران اور کابینہ ارکان کو ملنے والے مفت پٹرول پر بھی کٹ لگایا جائے گا۔  پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی صوبائی وزرا اور سرکاری افسران کو ملنے والے فیول کا کوٹہ 40 فیصد تک کم کر دیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کے سرکاری اداروں میں بھی پٹرول کے استعمال کی مد میں 35 فیصد کٹ لگایا گیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ پون صدی سے ہر مشکل مرحلے پر عوام ہی قربانیاں دیتے آرہے ہیں اور اشرافیہ نے ہمیشہ سہولیات اور مراعات کے مزے لیے ہیں اسی لیے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے۔ اب صورتحال اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ اگر اشرافیہ نے خود کو قربانیوں کے لیے آمادہ نہ کیا تو ملک ایسے مسائل سے دوچار ہو جائے گا جن کا حل کوئی بھی حکومت فراہم نہیں کرسکے گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے 2019ء میں آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر بیل آؤٹ پیکیج لیتے ہوئے یہ نہیں سوچا تھا کہ قوم کو اس کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اب وہی کڑی شرائط موجودہ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کو کوئی ایسی پالیسی سامنے لانی چاہیے جس سے عوام پر بوجھ کم سے کم پڑے کیونکہ پچھلے چار سال سے عوامی مسائل مسلسل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اگر حکومت اس مشکل وقت میں عوام دوست پالیسیاں نہ بناسکی تو آئندہ انتخابات میں اسے عوام کی طرف سے مینڈیٹ ملنے کا امکان بہت کم ہے۔

ای پیپر-دی نیشن